• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیّدہ سحرش بخاری

کہا جاتا ہے کہ خواتین فطری اور صنفی لحاظ سے نازک مزاج ہوتی ہیں ،مگر دیگر اور بیشتر خواتین کا یہ ٹیگ کسی پس منظر میں چھپ کر مبہم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک عورت گھراور گھرستی سنبھالنے کے ساتھ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی اپنی شناخت کروا رہی ہے۔ اگر ہم آج کے دور میں خوا تین کو دو حصوں میں بانٹیں تو اُن کی آبادی کا ایک بڑا حصہ آج بھی گاؤں اور دیہات میں ہنستا کھیلتا نظر آئے گا، جو اپنے رنگوں اور زندگی کی تمام خوبیوں کو ایک شفاف ندی کی مانند بہا رہا ہے۔ 

دیہی خواتین شہر کی مصنوعی زندگی کی سہولیات سے بے نیاز ہر کام اسی لگن اور محنت سے کر رہی ہیں جو شہر آباد ہونے سے قبل دلوں اور فطرت میں موجود تھی۔ اپنائیت، محبت اور سکون گاؤں اور دیہات کی میراث ہے۔ جہاں برگد کے درخت تلے آج بھی کسی گاؤں کی معمر خاتون چارپائیوں کی منج تیار کرتے ہوئے اپنے ساتھ بیٹھے بچوں کو اچھائی اور برائی کی تمیز سیکھا رہی ہوتی ہیں۔ اس منج کے بان میں محنت کی شفافیت اور لگن رچی بسی ہوئی ہے۔ دیہات میں رہنے والی خواتین کا طرز زندگی شہری رہائش پذیر خواتین سے کافی مختلف ہے۔ شہری زندگی کے بیشتر سہارے ہیں ، وہاں کی عورت کی زندگی کو آسان بنا دیتے ہیں ، تاہم دیہات میں اکثر پیسہ کمانابہت مشقت، صبر اور سختی کا مطا لبہ کرتا ہے ۔

مقصد تخلیق کی آگہی وسیع معنوں میں ’’خودشناسی‘‘کا ہی ایک پہلو ہے، تاہم پاکستان کی دیہی خواتین خود شناسی کے اس پہلو کو دریافت کرنے کے لیے ہمت اور لگن کے پانی سے شاداب ہوتے ہوئے زندگی کی دوڑ میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھاتی دکھائی دیتی ہیں اور اس دوران کبھی کسی کو اندازہ نہیں ہونے دیتیں کہ وہ صنف نازک بھی گردانی جاتی ہیں۔ وہ فصلوں کی بوائی میں مصروف، ان کی پکائی کے مہینے میں سبز اور کٹائی کے اوقات میں سنہری نظر آتیں ہیں۔ جہاں مشقت کی تھکن رات کی پرسکون نیند کی ضمانت دیتی ہے۔

ہم توقع نہیں کرسکتے کہ کیسے دور دراز علاقوں کی دیہی خواتین سہولیات اور آسائشوں کی عدم موجودگی میں بھی اپنی بنیاد کو مضبوط بنائے رکھتی ہیں، وہ اپنے معمول کے گھریلو کام میں بھی توانائی اور صحت مند زندگی تلاشتی ہیں، جہاں دودھ سے بلوتی لسی، مکھن اور دیسی گھی کی سوندھی خوشبو سے ساگ کے کھیتوں تک تپتے سورج کی سختی کو مات دیتی ہیں۔ ایسے میں کیا اب بھی خواتین کی زندگی کو مخصوص بنا کر پس پردا ان کی کاوشوں کا سہرا بارش کے پانی میں بہتا دریا اور سمندر کی نذرکر دیا جائے گا؟ 

کیا دیہی خواتین کو نظرانداز کرتے ہوئے کسی گاؤں یا دیہات میں اس صنف نازک کو منہ سی کر ہر ظلم برادشت کرنے کی ترغیب دی جائے گی؟ کیا اب بھی دیہات اور گاؤں میں پیدا ہونے والی لڑکی اپنے بھائی کا یونیفارم تو ہنستے ہوئے سی دے گی ،مگر آنکھوں میں لیا وہ خواب جس میں لڑکیوں کا کالج، یونیورسٹی اور دستکاری ا سکولوں کے کھلنے کا انتظار طویل سے طویل تر ہوتا جائےگا؟ ہمارا شمار ایسی جمہوریت میں ہے جہاں ہم جامع ترقی پر زور تو دیتے ہیں ، مگر ان لوگوں تک پہنچنے اور ان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا نظام کافی سست ہے۔

تمام تر مسائل کو دیکھنے، ان پر غور و فکرکرنے ،جانچنےاور ان کو حل کرنے کا وقت آگیا ہے ،تا کہ دیہی خواتین کو پاکستان کی ترقی اور خوش حالی میں مناسب حق حاصل ہو ۔

تعلیم حاصل کر نےکے بعد اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے مزید مواقع حاصل ہوں ،جس میں عملی ہنر اور صلاحیتوں کو مزید پنپنے کے مواقع فراہم کئے جائیں، تاکہ ذہنی اور تعلیمی ایندھن کی کمی کی وجہ سے خواتین کو درپیش بنیادی مسائل کا ازالہ کیا جائے۔ ایک دانا کا قول ہے کہ اگر ملک کی ترقی کا معیار جانچنا ہو تو دیہی علاقوں کا رخ کیا جائے۔پاکستان جیسے ترقی یافتہ ملک میں دیہی خواتین اپنا کردار بہ خوبی سرانجام دے رہی ہیں۔

دیہات میں کچھ ایسی خواتین بھی ہیں جو خود تو پڑھی لکھی نہیں ہیں ،مگر ایک نجی پرائمری اسکول میں پرنسپل کی حیثیت سے اسکول چلا رہی ہیں ۔اور اپنے علاقے کی لڑکیوں کو تعلیم سے بہرہ مند کررہی ہیں ۔اپنے گائوں کی پڑھی لکھی لڑکیوں کو اساتذہ کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے موقعے فراہم کرتی ہیں ۔اس جدید دور میں آپ کو دیہات میں مقیم خواتین میں بہت سی entrepeneurخواتین بھی ملیں گی جو اپنی صلا حیتوں کی بنا ء پر کوئی نہ کوئی کام کررہی ہیں۔ 

اس طر ح وہ گھریلو صنعتوں کو بھی فر وغ دے رہی ہیں۔ دیہی خواتین پاکستان کی بنیادوں میں اپنے گھر، فصلیں اور ملکی ترقی کی طرف گامزن ہر سڑک کے لیے روڑھی تو پیس رہی ہیں ،مگر اس سڑک پر بنیادی سہولیات کی فر اہمی کی دوڑ جتنے کے لیے بہت مشقت بھی کررہی ہیں۔ ہمت اور حوصلے کی مثال بنتی وہ خواتین جو اس دوڑ میں فتح حاصل کرنے کا جذبہ اور جنون لیے ہوئے اپنے مستقبل کو بہتر کرنے کے لیے پر جو ش ہیں۔