اسلام آباد (فاروق اقدس/نامہ نگار خصوصی) حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے جاری سرگرمیوں اور حکومت کی جانب سے ان سرگرمیوں کو غیر فعال کرنے کے ساتھ ساتھ جوابی وار کرنے کے اقدامات کا کھیل مارچ کے دوسرے ہفتے میں داخل ہو رہا ہے جس کا آغاز پیر کو اپوزیشن کی جماعتیں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے کریں گیتاہم اتوار کی شب وزیراعظم عمران خان کا میلسی میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ’’ عدم اعتماد کی ناکامی پر کیا آپ تیار ہیں جو میں آپ کیساتھ کروں گا‘‘ غیر مبہم الفاظ میں اپوزیشن کو للکارنے کا انداز تھا جس پر اپوزیشن کی جانب سے ردعمل اور تبصروں کا سلسلہ جاری ہے جن میں وزیراعظم کے اس ’’انتباہ‘‘ کو اپوزیشن کیلئے ایک دھمکی آمیز پیغام سے تعبیر کیا جارہا ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں اپوزیشن کیلئے ان کے عزائم کا اندازہ بھی اس طرز گفتگو سے لگایا جاسکتا ہے جس سے اپوزیشن کے ارکان خاصے برہم ہیں لیکن دوسری طرف لاہور میں بلاول بھٹو کا میڈیا سے گفتگو کے دوران یہ کہنا کہ ’’ تحریک عدم اعتماد ایک مشکل ٹاسک ہے سوفیصد کامیابی کی گارنٹی نہیں دے سکتا‘‘ اسے مایوس کن قرار دیا جارہا ہے کیونکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین اور راہنما پورےیقین اور اعتماد سے اپنے حامیوں اور مخالفین کو یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ نہ صرف اپوزیشن کے پاس نمبرز پورے ہیں بلکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حمایت حاصل ہونیوالے ارکان کی تعداد مطلوبہ نمبرز سے بھی کہیں زیادہ ہے پھر بلاول بھٹو کی جانب سے یہ بات اس وقت سامنے آئی ہے جب اپوزیشن اپنی منزل کو قریب تر سمجھ رہی ہے۔ گوکہ بلاول بھٹو نے اس موقعہ پر یہ بھی کہا کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہ ہوئی تو میں آرام سے گھر میں نہیں بیٹھوں گا بلکہ ہم بار بار جمہوری حملے کریں گے لیکن اس جملے میں بھی ناکامی کا خدشہ موجود ہے۔ اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن)کے صدر میاں شہباز شریف آج (پیر) اسلام آباد آجائیں گے۔ مولانا فضل الرحمان اسلام آباد میں ہی موجود ہیں دونوں کی متوقع ملاقات میں عدم اعتماد کی تحریک اور ریکوزیشن جمع کرانے کے حوالے سے حتمی مشاورت ہوگی جبکہ طے شدہ شیڈول کے مطابق اگلے روز منگل کو بلاول بھٹو بھی اسلام آباد میں موجود ہونگے جہاں وہ جلسہ عام سے بھی خطاب کرینگے۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین کی جانب سے باردیگر کہا گیا ہے کہ تمام اراکین اسمبلی اسلام آباد میں ہی موجود رہیں اور کسی صورت بھی بیرون ملک نہ جائیں اس تاکید کی ضرورت اس لئے بھی پیش آئی ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں ایسی خبریں موجود ہیں کہ بعض ارکان کو کچھ دنوں کیلئے سرکاری وفد میں شامل کرکے بیرون ملک بھیجنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے تاکہ وہ عدم اعتماد کی تحریک کے موقعہ پر ایوان سے غیرحاضر رہیں۔