سات دن کی معصوم بچی اور پستول کی پانچ گولیاں۔ آج لکھنے کو نہ تو ہاتھ تیار ہیں نہ دل کی دھڑکن ساتھ دے رہی ہے۔ شاید ایک ماں کا، پورے میانوالی کا سارے پاکستان کا کرب میں لفظوں میں ڈھال سکوں۔ سات دن قبل ایک رحمت نے ایک ظالم باپ کے گھر آنکھ کھولی۔
آپریشن تھیٹر سے نرس معصوم بچی کو لے کر آئی اور باپ کو مبارک دیتے ہوئے، اس کے ہاتھ میں تھما دی ۔بے رحم باپ نے بنا دیکھے بیڈ پہ پھینک دیا اور کہنے لگا مجھے بیٹی نہیں بیٹا چاہیے تھا۔ زخموں سے رِستےخون سے کرلاتی ہوئی ماں نے کہا، بیٹی تو روز محشر آپ کو جنت میں ساتھ لے کر جا ئےگی۔
لیکن ظالم باپ کو کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تھی۔ ماں ،اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ میں نے تو پورے وقت خیال رکھا ،بخار ہوا تو اس ڈر سے دوائی نہیں کھائی کہ بچے پر اثر نہ ہو جائے ،درد سے تڑپتے رہتی تھی پر دوائی نہیں کھاتی تھی ،جو کھانے مجھے اچھے لگتے تھے چھوڑ دئیے کہ بچے کے لیے ٹھیک نہیں۔ اُٹھتے ،بیٹھتے ،چلتے پھرتے احتیاط کی کہ بچے پر اثر نہ ہو ۔بھلا مجھے کوئی بتائے تو سہی کہ میر اقصور کہاں ہے ؟فرشتے بھی کانپ گئے ہوں گے جب بے رحم باپ نے ننھی پری کو گولیاں ماری ہوں گی۔
پہلی گولی پر بیٹی نے کہاں ہو گا۔ بابا نا مارو …جب آپ دفتر سے تھکے آئو گے تو میں آپ کے شوز اُتارا کروں گی۔ میں آپ کے کپڑے استری کیا کروں گی۔ روزانہ دروازے پر آپ کے لیے پانی کا گلاس لے کر انتظار کیا کروں گی۔ دوسری گولی پر اٹکتی سانسوں کے ساتھ کہا ہوگا۔ بابا نامارو مجھے ، میری ماں مجھے سے پہلے مر جائے گی۔ بابا نا مارو مجھے ،میرے لیے سلے چھوٹے چھوٹے کپڑے میری ماں کو پاگل کردیں گے۔
میری ماں میرے لیے کھلونے لائی تھی ،میرے جانے کے بعد ان کھلونوں کی چھن چھن تجھے بہت رُلائے گی بابا۔ آخری گولی پر معصوم کلی نے کہا ہو گا کوئی بات نہیں بابا۔ میں آپ کو پسند نہیں آئی ،میں تو رحمت تھی ،شاید آپ کو بوجھ لگی۔ میں آپ کی خوشی میں خوش ہوں بابا ۔اس دنیا میں نہ سہی اگلی دنیا میں ساتھ رکھنا بابا۔میں تب تک جنت میں نہیں جاؤں گی جب تک آپ میرے ساتھ نہیں ہوں گے بابا۔ (منقول)