زرینہ عالم خان
کہتے ہیں کہ ساس بہو کا مسئلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے اور آج تک قائم ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف برصغیر میں ہے بلکہ کافی حد تک مغربی ممالک میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس مشکل مسئلہ پر کافی غور و خوض اور تحقیق کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہوں کہ ،در حقیقت یہ مسئلہ ملکیت کاہے۔ جب ماں اپنے بیٹے کو صرف اپنی ملکیت سمجھے اوربیوی اپنے شوہر کو اس حد تک اپنا بنانا چاہے کہ وہ اپنے والدین اور رشتہ داروں سے بھی دور ہوجائے تو ایسی صورت میں کچھ اس طرح کا نقشہ سامنے آتا ہےکہ بیٹا درمیان میں ہے، اس کا ایک بازو ماں نے پکڑا ہوا ہے اور دوسرا بیوی نے اور دونوں جانب اپنی پوری قوت سے اسے اپنی جانب گھسٹینے کی کوشش کررہی ہوں۔ اس کھینچا تانی میں بیٹا جس تکلیف اور اذیت سے گزرتا ہےاس کا حساب شاید کوئی نہیں کرتا۔
ایک جانب ماں ہے جس کا بیٹا اس کے جسم کا حصہ ہوتا ہے، جس کےپائوں تلے اولاد کی جنت ہوتی ہے ، جس کو محبت سے دیکھنا اولاد کے لئے حج کے ثواب کا درجہ رکھتا ہے۔ جو اولاد کے لئے دنیا میں سب سے بہترین سلوک کی مستحق ہوتی ہے اور جس کی دعائوں سے اولاد پھولتی پھلتی ہے۔
دوسری جانب بیوی ہے ،جس کوشہر کا لباس کہا گیا ہے اور جو اس کی قریب ترین ساتھی، دوست، شریک حیات اور اس کےبچوں کی ماں ہوتی ہے، جس کواسلام نے بہت حقوق دیئے ہیں، پھر بھلا یہ دونوں محترم ہستیاں برسر پیکار کیوں رہتی ہیں؟
ساس بہو کا جھگڑا کیوں ختم نہیں ہوتا۔ کیا وجہ ہے کہ بہو جب خود ساس بنتی ہے تو بہو کے لئے اس کی شفقت اور محبت کی شدت میں کمی آجاتی ہے؟ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہمارےہاں عموماً لڑکوں کو بیوی اور ماں کے درمیان توازن رکھنے کی تربیت نہیں دی جاتی۔ وہ یا تو والدین کےہوکر رہ جاتے ہیں اور بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتے یا وہ بیوی کے ہوکر والدین سے علیحدگی اختیار کرکے ان کے حقوق سے چشم پوشی کرتے ہیں۔
اگر شوہر بیوی کے حقوق پورے کرتے ہوئے والدین کے حقوق بھی پورے کرے دونوں کو اپنی اپنی جگہ اہمیت دے اور اپنے سلوک اور برتائو میں توازن رکھے تو خود بھی سکو ن سے رہ سکتا ہے اوروالدین اور بیوی کو بھی شکایات نہیں ہوگی۔ اس طرح گھر کا امن بھی برقرار رہ سکے گا ، لہذا اس ضمن میں میری تحقیق کے نتیجے میں جو دیگر وجوہات یا مسائل سامنے آئے ہیں، وہ درج ذیل ہیں۔
…مسئلہ نمبر 1…
کچھ گھرانوں میں لڑکیوں کی مائیں اس سوچ اور عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہیں، اگر ان کی بیٹی ساس کو اپنی ماں سمجھنے لگے گی تو اس طرح وہ اپنی بیٹی کو کھو بیٹھیں گی۔ تحت الشعور میں اس خوف اور عدم تحفظ کی وجہ سے مائیں اپنی بیٹی کے ذہن میں شروع ہی سے ساس کاایک ظالم اور خوفناک ہستی کی حیثیت سے تصور بٹھا دیتی ہیں۔ ایسی ہستی جو ازل سے بہو کی دشمن ہو،وہ اپنی بہو سے جوکچھ بھی کہے گی اور اسے نقصان پہنچانے اور تکلیف دینے پر مبنی ہوگا۔
وہ اپنے بیٹے سے جو بھی بات کرےگی وہ بہو کی برائی کرنے اور بیٹے کو بہو کے خلاف بھڑ کانے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ یہ تصور اورسوچ لے کہ جب لڑکی سسرال آتی ہے تو ا سے اپنی ساس کی اچھی بات میں بھی برائی نظر آتی ہے۔ ساس کاہر عمل اسے اپنے خلاف سازش نظر آنے لگتاہے۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے ساس بہو کے مسئلہ کی، دوسرے معاشروں میں بھی ساس کا کردار اچھا نہیں دکھایا جاتا۔
اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ والدین جب اپنی بیٹی کی پرورش اور تربیت کریں تو اس دوران ساس کے بارے میں یہ ذہن نشین کرائیں کہ ساس اچھی اور بری دونوں طرح کی ہوتی ہیں۔ اس لئے بہو پر لازم ہے کہ وہ شادی کے بعد ان کے رویے اور برتائو کو غیر جانبدارانہ انداز میں دیکھے، پرکھے اور پھر فیصلہ کرے۔ اگر اسے اپنی ساس کے سلوک میں خلوص ، محبت اور اچھائی نظرآئے تو وہ اس کا جواب بڑھ چڑھ کر محبت اور احترام سے دے۔ اور اگر ساس کے سلوک میں ظلم، زیادتی اور برائی ہو تو جہاں تک ممکن ہو صبر، تحمل اوردرگزر سے کام لے اور اگر ناقابل برداشت ہو تو اس کا سدباب کرے۔
…مسئلہ نمبر 2…
ایسی خواتین جن کوخود ظالم قسم کی ساس سے سابقہ پڑا ہو اورجو سسرال والوں کے ظلم و ستم کا شکار رہی ہوں، تو ان میں سے جو سمجھ دار ہوتی ہیں وہ اپنی بہو سے شفقت اور محبت سے پیش آتی ہیں کیونکہ وہ خود جس تکلیف سے گزر کرآتی ہیں، اس کا احساس کرتے ہوئے اپنی بہو کو وہ اذیت نہیں دینا چاہتیں۔ لیکن کچھ ایسی بھی ساسیں ہوتی ہیں، جو انتقاماً اپنی بہو کو ظلم و ستم کا نشانہ بناکرتسکین محسوس کرتی ہیں۔
اس طر ح کی صورت حال میں گھرکے ہرفرد خصوصاً شوہر اور ان کے علاوہ سسر ، نند، دیور، جیٹھ وغیرہ پہ لازم ہے کہ وہ گھر کی بہو پر ظلم نہ ہونے دیں اور ظالم ساس کو ہرطریقے سے منع کرنے کی کوشش کریں۔ اگر یہ بھی کارگر نہ ہو تو خود بہو کو چاہئے کہ وہ شوہر سے کہیں کہ وہ اپنی والدہ کو سمجھائیں، اگر پھر بھی فرق نہ پڑے تو شوہر بیوی کو لےکر علیحدہ رہائش اختیار کریں۔ بیٹا خود الدین کے حقوق ادا کرتا رہے، لیکن اپنی بیوی کو ظلم کا شکارنہ ہونے دے۔ یاد رکھیے جب تک معاشرے میں ظلم وستم برداشت کیا جاتا رہے گا اس وقت تک ظالم ظلم کرتے رہیں گے۔
…مسئلہ نمبر 3…
اکثر گھرانوں میں ساس اپنی بہو سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ وہ ان سے بھی اسی شدت سے محبت کریں، جس طرح وہ اپنے والدین سے کرتی ہیں اور ہر بات پر اپنی بہو کا مقابلہ اپنی بیٹی سے کرتی ہیں، اسی طرح بہویں بھی اپنی ساس سے یہ توقع کرتی ہیں کہ وہ اسی مامتا بھری محبت کا اظہار ان سے کریں جیسا وہ اپنی بیٹی سے کرتی ہیں اور اپنا مقابلہ اپنی نند سے کرتی ہیں۔
اسی صورت میں دونوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،کیونکہ یہ سوچ اور توقعات غیر فطری اور غیر حقیقت پسندانہ ہیں اور ایسی توقعات نہ پوری ہونے کی صورت میں ساس بہو کے تعلقات میں مایوسی کے ساتھ ساتھ کشیدگی اور تناؤ پیدا ہوتا ہے، جو بڑھ کر دونوں کے درمیان فاصلے پیدا کردیتا ہے۔
ساس اور بہو کو اس حقیقت کا احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ خونی رشتوں کا مقابلہ تعظیمی رشتوں سے کرنا حقیقت پسندی نہیں۔ ساس اور بہو کے رشتے اور تعلقات کا انحصار ایک دوسرے سے برتائو پر منحصر ہے۔ اگر دونوں ایک دوسرے کا مقام تسلیم کریں، عزت اور محبت سے پیش آئیں ، ایک دوسرے کی ضروریات اور احساس کا خیال رکھیں اور دکھ سکھ میں شریک رہیں تو یہ رشتہ مضبوط اور مثالی ہوجاتا ہے۔ اور کبھی کبھی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ رشتہ خونی رشتہ پربھی سبقت لے جاتا ہے۔
ہر رشتہ محبت، خیال رکھنے اورقربانی سے مضبوط ہوتاہے۔ اوراس میں پہل بہو کی جانب سے ہونا زیادہ موثر ہے، کیونکہ وہ سسرال میں باہر سےآتی اور اپنے حسن سلوک سے اپنی جگہ بناتی ہے ۔ دوسری اہم بات یہ کہ شروع ہی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئے، تاکہ بعد میں مایوسی اور شکوے شکایات نہ ہوں۔
…مسئلہ نمبر 4…
ہمارےہاں معاشرے میں جہاں دوسری بہت سے سماجی برائیاں ہیں، وہیں جہیز کا رواج بھی عام ہے۔ جہیز کے علاوہ شادی کے وقت لڑکی والوں کی طرف سے سسرال والوں کو جوڑے اور ساس کوکڑے یا زیور دینے کا بھی روا ج ہے۔ یہ سامان کم یا نہ ملنے کی صورت میں اکثر سسرال والے ،خصوصا ساس اپنی بہو کو طعنے دیتی رہتی ہیں۔ شادی کے بعد لڑکے والوں کی طرف سے اکثر مطالبات کا سلسلہ بھی جاری رہتاہے، جن کے پورا نہ ہونے کی صورت میں ساس بہو کے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔
جہیز کے متعلق صرف اتنا کہوں گی کہ لالچی کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا، ضرورت اس امر کی ہے کہ مطالبات کرنے والوں کا احتساب ہو، اس ضمن میں معاشرے کی سوچ ، رویوں اور رواجوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ساس اور بہو کے تعلقات اگر لین دین کی وجہ سے خراب ہورہے ہوں تو ایسی صورت میں خاندان کےدیگر افراد پر لازم ہے کہ وہ ساس کو ان کے غیر مناسب رویے کا احساس دلائیں اور اس سے باز رکھیں۔
ساس بہو کے درمیان اچھے تعلقات میں لڑکی والوں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ وہ اپنی بیٹی کو صحیح تربیت دیں، بزرگوں کی عزت کرنا سکھائیں، صبر، تحمل اور برداشت کی عادت ڈالیں، محبت اور اپنائیت سے رہنے کی تلقین کریں، رشتوں کا حسب مراتب احترام کرنا سکھائیں، شادی شدہ بیٹی کے معاملات میں دخل اندازی سےاجتناب کریں اور بیٹی کے سسرال والوں خصوصاً داماد کو عزت و احترام دیں اور حسن سلوک سے پیش آئیں تو اس طرح یقینی طور پر دونوں گھرانوں میں محبت اور مفاہمت کی فضا پیدا ہوگی اور ساس بہو کے تعلقات بھی بہتر ہوں گے۔
اسی طرح لڑکے والوں کا رویہ بھی نہایت اہم ہے۔ لڑکے کی والدہ چونکہ اس گھرانے کی منتظم اعلی اور ’’لیڈی آف دی ہائوس‘‘ ہوتی ہیں، اس وجہ سے ان کا کردار اوربرتائو ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے، اگر وہ گھر میں اتفاق ، حسن سلوک اور انصاف کی بنیاد ڈالیں تو گھر کے دیگر افراد باہمی افہام و تفہیم اور سلوک سے رہ سکتے ہیں اورساس بہو کےدرمیان بھی اچھےتعلقات قائم ہوسکتے ہیں ، اس کے علاوہ اگرساس کو بہو سے شکایات ہوں توبہتر یہی ہے کہ وہ فوری طورپر بات کرکے خود ہی اسے دور کرلیں۔
کسی دوسرے سےبہو کی برائی ہرگز نہ کریں اور نہ ہی رشتہ داروں ، ملنے والوں اور پڑوسیوں کو یہ اجازت دیں کہ وہ بہو کے خلاف کوئی بات کریں۔ دوسرے یہ کہ اپنے بیٹے کو بہو کے خلاف بھڑکا نا انتہائی غلط رویہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شوہر بیوی کے درمیان نااتفاقی ڈلوانا انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے، لہٰذا اس سےاجتناب کرنا چاہئے۔
اگر کسی بات کی وضاحت کرنی ہو تو بیٹے اوربہو دونوں کے سامنے کریں۔ اس ضمن میں گھرکی بہو پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ماں اور بیٹے کےرشتے کے تقدس، قربت اور محبت کو ذہنی طور پر قبول اوردل سے تسلیم کرلے اورکبھی بھی اپنا مقابلہ اپنے شوہر کی ماں سے نہ کرے، کیونکہ دونوں کامقام اور مرتبہ مختلف ہے۔
اولاد ماں کے جسم کا حصہ ہوتی ہے اور بیوی شریک حیات اور شوہر کا لباس، دونوں کی حیثیتیں اپنی اپنی جگہ نہایت اہم اور مستحکم ہیں، لیکن ان میں تصادم کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ دونوں کے دائرہ کار مختلف ہیں،اس لئے بیوی کو ماں بیٹے کی محبت اور تعلقات کےدرمیان آنے یا بیٹے کو ماں سے دور کرنے کی کوشش ہرگز نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ یہ ظلم ہے اورظلم چاہئے ساس کرے یا بہو ، دونوں غلط اور ناقابل برداشت ہیں۔
والدین لڑکے کے ہوں یا لڑکی کے، وہ چراغ سحر ہوتی ہیں۔ جتنے عرصے بھی وہ دنیا میں ہوں، ان کی قدر کرنی چاہئے۔ ان کی دعائیں لینے سے دین اور دنیا دونوں ہی سنورتی ہیں۔ ان کا دل دکھانے یاان کے حقوق ادا نہ کرنے والا کبھی پھولتا پھلتا نہیں۔ یہ میرا مشاہدہ اور ایمان ہے۔
آج کےترقی یافتہ دور میں زندگی انتہائی مصروف ہوگئی ہے۔ اس مصروف اور مشینی زندگی میں انسان ذہنی سکون اور قلبی اطمینان سے روز بروز دُور اوردماغی تنائو کاشکار ہوتا جارہا ہے۔ ایسے دور میں ساس بہو کے روایتی جھگڑے کی کوئی گنجائش نہیں کہ اس طرح ساس ، بہو اور بیٹا تینوں ہی ذہنی پریشانیوں اور کرب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی کسی دوسرے کوتکلیف دیتا ہے تووہ خود بھی ذہنی تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ میرے خیال میں ساس بہو کی چپقلش اور لاحاصل کشیدگی کااب خاتمہ ہو جانا چاہیے۔
اس سلسلے میں معاشرے کے تمام طبقے، خصوصاً ریڈیو کے ذریعے اس موضوع پر مختلف پروگراموں ، ڈراموں اور بات چیت کے ذریعے لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ انسان اپنی مختصر سی زندگی میں برداشت اور تحمل سےکام لیتے ہوئےتمام رشتوں کے تقدس اوران کے حقوق کی پاسداری کرے۔ آپس میں محبت اور سلوک سےمل جل کر رہنے کا لطف اٹھائے تو یہی کامیاب زندگی ہے۔ لڑائی جھگڑے کرنے، ایک دوسرے کے حقوق غضب کرنے والے نہ خود چین اورسکون سےرہ پاتےہیں اورنہ دوسروں کورہنے دیتےہیں۔ آخر میں سوائے باہمی نفرت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
یادرکھیں کہ جب انسان دنیا سے جاتا ہے تو لوگ مرنے والے کو یاد کرکے یہ بہت کم کہتے ہیں کہ وہ کتنا خوبصورت ، کتنا ذہین، کتنا پڑھا لکھا اور کتنا امیر تھا، بلکہ زیادہ لوگ یہی کہتے ہیں کہ مرنے والا بہت اچھا تھا کیونکہ اس نے فلاح وقت میرے ساتھ یہ نیکی ، یہ اچھائی ا وریہ سلوک کیا۔ یہی سوچ،اگر انسان اپنا لے کہ مال دولت ،اولاد، بیٹا، بیٹی، شوہر ، بیوی، ماں، باپ، بہن بھائی وغیرہ سب اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتیں ہیں، اس لئے جب تک دنیا میں رہیں سب کے حقوق و فرائض ادا کرتے رہیں ۔ اچھائی اور حسن سلوک سے رہیں۔ اور بابا بلھے شاہ کی اس بات کو یاد رکھیں کہ:
ناں کر بندیا میری میری
نہ اے تیری، نہ اے میری
چار دناں دا میلہ دنیا
فیر مٹی دی ڈھیری