• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روحابہ دلشاد

مہمانوں کے آنے میں بہت کم وقت رہ گیا تھا اور وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح دیوار پر لگے شیشے میں خود کو ہر زاویے سے دیکھ رہی تھی، وہ کبھی آئینے کے قریب جاتی ہے تو کبھی دور، کبھی بال کھولتی ہے تو کبھی باندھتی ہے کبھی مسکراتی ہے تو کبھی ایک دم سنجیدہ ہوجاتی ہے۔ یہ سب کرتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی کہ وہ واقعی بہت عام سی ہے،کاش اللہ تعالی نے مجھے بھی تھوڑا خوبصورت بنایا ہوتا ! یہ سوچتے ہوئے نہ جانے کتنے آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر زمیں میں جذب ہوگئے تھے۔ آج بھی تیار ہوتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی کہ آخر کب تک! اماں کے چہرے پر آج بھی ہمیشہ کی طرح پریشانی اور غصے کے ملے جھلے تاثرات تھے ،اماں کا بھی کیا قصور ہے ۔ 

قصور تو میرا ہے ،اگر میں بھی خوبصورت ہوتی تو آج یہ سب نہ ہوتا! مہمانوں کے سامنے چائے کی ٹرے رکھتے ہی اس کے آگے اُن سوالات کی برسات کردی جاتی ہے جن کے جوابات وہ ہمیشہ سے ہی بڑی روانی کے ساتھ دیتی آئی تھی لیکن افسوس پاس پھر بھی نہیں ہوتی تھی۔ رات گئے فون کی گھنٹی بجتی ہے ، اماں کے چہرے پر ایک کے بعد ایک رنگ آتا دیکھ کر وہ سمجھ گئی تھی کہ لڑکے والوں نے منع کردیا ہے۔ 

وہ آج بھی ریجیکٹ کردی گئی تھی !صرف اس لیے کہ وہ ایک عام شکل و صورت کی گھرداری میں ماہر پڑھی لکھی لڑکی تھی۔ مگر افسوس وہ خوبصورت نہیں تھی! آج بھی ہمیشہ کی طر ح اسے اور اماں کو رات بھر تکیہ بھگونا تھا!

یہ وہ کہانی ہے جو آج ہمیں اپنے سو کالڈ تعلیم یافتہ معاشرے کے ہر گھر میں رونما ہوتی نظر آتی ہے۔ آپ کا تعلق چاہے کسی بھی کلاس سے ہو اگر آپ بیٹی والے ہیں تو آپ کو بھی اس کہانی کا کردار بننا پڑے گا۔ کہتے ہیں بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں لیکن درحقیقت صرف اپنی بیٹی ہی اپنی ہوتی ہے۔ہمارے معاشرے کی یہی تو روایت ہے کہ اپنی بیٹی جان سے پیاری اور دوسرے کی بیٹی کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں ! آپ کسی کی بیٹی میں دس دس خامیاں نکالو اور بدلے میں اس بدی کا بدلا نیکی تصور کرو، یہ سراسر بیوقوفی ہے۔ ہم جس معاشرے اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں وہاں یہی روایت ہے کہ جتنا جلدی ہوسکے بیٹیوں کو اپنے گھر کا کر دینا چاہیے، کیوں کہ ان کا اصل گھر سسرال ہوتا ہے۔

کہتے ہیں عورت ہر طرح کی تکلیف برداشت کر لیتی ہے۔ صنفِ نازک کا لقب پانے والی عورت زندگی کے کئی معاملوں میں مرد سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ لیکن عورت تکلیف تو برداشت کرلیتی ہے ، ذلت نہیں! اور کرے بھی کیوں جب اللہ نے اسے اتنی عزت دی ہے کہ اسے ماں کا درجہ دیا اور اس کے قدموں تلے جنت رکھی ہے تو ہم کیوں اس کی عزتِ نفس مجروح کرنے میں لگے ہوئےہیں؟ 

ہم آج کس مذہب کی اقدار لے کر چل رہے ہیں۔ جہاں ماں باپ کو اپنی بیٹی کو اس کے گھر کا کرنے کے لیے سجا سنوار کر ہر طرح کی چھوٹی اور اونچی سوچ رکھنے والے لوگوں کے آگے پیش کرنا پڑتا ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ وہ مہم ہے، جس کا حصہ بننا آج کے دور کی ضرورت بن گیا ہے۔ لیکن یہ آنے والے کونسی شیطانی صفات کے مالک ہوتے ہیں ، ان کی انسانیت ، شرافت اور غیرت اس وقت کہاں چلی جاتی ہے جب یہ لڑکی کے گھر آنے سے قبل یا بعد میں ان کے والدین سے الٹے سیدھے سوالات پو چھتے ہیں۔

لڑکی گوری ہے یا کالی ؟ چھوٹی ہے یا لمبی ؟ موٹی ہے یا پتلی؟ لڑکیوں کو گھر آنے سے پہلے ہی اس قدر خود اذیتی کا شکار کر دیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کے آگے آنے میں عار محسوس کر تی ہیں، گھبراتی ہیں ، کانپتی ہے لیکن ان سب سے لڑکے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ، وہ آتے ہیں کھاتے ہیں، گھورتے ہیں اور چلے جاتے ہیں! اور بعض اوقات تو جواب دینا بھی گوارہ نہیں کرتے اوریہاں لڑکی اوروالدین آس لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔

کوئی یہ بھی بتادے کہ ہم لڑکیوں کا کیا قصور ہے ؟ ہمارا رنگ ، صحت، اور صورت سب کچھ کیوں د یکھا جاتا ہے۔ ہماری سیرت ،گھرداری سلیقہ اور اخلاق کیوں نہیں دیکھا جاتا؟ کیوں ہمارے معاشرے میں ہر معاملے میں عورت کو مرد سے کمتر اور پیچھے رکھا جاتا ہے ؟اس میں سارا قصور ہماری سوچ کا ہے۔ ہم نے اپنے ذہنوں میں یہ سوچ فٹ کر لی ہے کہ عورت برداشت کرتی ہے ۔ ہماری اسی سوچ اور عمل نے لڑکیوں سے ان کی زندگی کا اہم فیصلہ کرنے کا حق چھین لیا ہے۔ لڑکے ہزار نخرنے دکھائیں اور لڑکیا ں ریجیکٹ کرتے پھریں لیکن ہمارے پاس کئی لوگوں کے آگے ریجیکٹ ہونے کے بعد یہ آپشن ہی نہیں رہتا کہ ہم ناں کر سکیں !ہم لڑکیا ں اپنے ماں باپ کی پر یشانیوں سے اور خود سے جنگ لڑتے لڑتے اس قدر تھک جاتی ہیں کہ بالاآخر ہم اپنی پسند پر ماں باپ کی پسند کو تر جیح دے دیتی ہیں۔

سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے معاشرے میں یہ گھر گھر جا کر ،کھا پی کر اور تنقید کر کے گھر کی عزت لانے کا رواج کہاں سے آیا ہے۔ لیکن میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ اس امر کو فوری طور پر درستی کی ضرورت ہے اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہماری سوچ تبدیل ہوگی ۔اگر لڑکے والے لڑکی کے گھر مس یونیورس تلاش کرنے کے بجائے بہو تلاش کرنے کی نیت سے جائیں اور یہ سوچ لیں کہ اگر آج وہ کسی کی بیٹی پر تنقید کریں گے تو کل کو ان کی بیٹی بھی اس چیز کا نشانہ بن سکتی ہے تو مجھے یقین ہے کہ یہ سوچ ان کی پس ماندہ سوچ کو اتنا اونچا تو کر ہی دے گی کہ وہ کسی بھی لڑکی کو اس کے گہرے رنگ، عام شکل و صورت اور موٹاپے کی بنیاد پر ریجیکٹ کرنے سے پہلے دس بار ضرور سو چیں گے ! خوبصورتی ہی سب کچھ نہیں ہوتی ہے اصل میں انسان کو اچھے اخلاق کردار اور سیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمیں اپنی سوچ کو بدلنے کی اشدضرورت ہے ۔ساتھ ہی اس معاملے میں لڑکیوں کو بھی چائیے کہ وہ خود کو کسی سے بھی کمتر نہ سمجھیں اور لوگوں کی فضول باتوں کو دل سے لگا کر بیٹھنے کے بجائے خود کو موٹیویٹ کرتی رہیں۔ اس کے علاوہ ما ں باپ کو بھی شادی کے معاملے میں دیر سویر اور بار بار ریجیکٹ ہونے پر اپنی بیٹیوں کو یا اُن کےنصیب کو قصور وار نہیں ٹہرانا چاہیے۔