عائشہ سیف
بچے کی تعلیم تو ماں کی گود سے ہی شروع ہوجاتی ہیں لیکن چارسال کی عمر میں بچہ ا سکول جانے کے قابل ہوجاتا ہے یعنی یہ وہ عمر ہوتی ہیں جب بچہ قانون و قواعد کی پابندی کرنا کچھ نہ کچھ سیکھ لیتا ہے اور اس لیے اسی زمانے میں اس کی باضبطہ پرائمری تعلیم شروع کرادی جاتی ہیں۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ اس عمر کے بچوں کو منظوم کہانیاں، واقعات اور نظمیں وغیرہ یاد کرائیں۔
پانچ سال کی عمر میں بچوں کو کہانی سننے کا چسکا بھی بہت زیادہ ہوتا ہے مختلف پالتو جانوروں کی کہانیاں اور ایسے انسانوں کی کہانیاں جو ان کی ہم عمر اور ان کے اپنے ماحول سے قریب ہوں ان کوبہت متاثر کرتی ہیں ۔بچوں کو اس عمر میں ڈرائنگ کی سہولتیں یعنی رنگ کاغذ اور برش وغیرہ ضرور خرید کر دینا چاہیں ،اس طرح انہیں کھلی فضا میں مٹی میں کھیلنے دیں ،مٹی کے گھروندے اور تصویریں بنانے سے ان کی تعمیری جبلت کی بڑی تسکین ہوتی ہے۔
بچے کی فطرت ہےکہ وہ اپنی تجسس کی عادات کے باعث ہر چیز کو چھیڑتے، چھوتے اور توڑتے پھوڑتے ہیں اس لیے ان کا چوٹ کھانا یا خود کو نقصان پہنچا لینا کوئی حیرت کی بات نہیں، ویسے بھی چار سال کی عمر کے بعد بچے میں کچھ زیادہ ہی توانائی آجاتی ہے جسے روکا نہیں جاسکتا ،کیوںکہ اس عمر میں اسے اپنے ہاتھ پیروں پر قابو بھی حاصل ہوجاتا ہے اور وہ ان سے کام لینا بھی سیکھ چکا ہوتا ہے اس لیے اب وہ اپنے اوپر کچھ زیادہ ہی اعتماد کرنے لگتا ہے اور ہر چیز میں گھس کر اس کی اصلیت معلوم کرنا چاہتا ہے تجسس کا یہی میلان اس سے ہر لحظہ ”کیوں اور کیسے“کا جواب مانگتا رہتا ہے، بچے اکثر والدین اور گھر کے دیگر بزرگوں سے سوالات پوچھتے رہتے ہیں: یہ کیوں ہیں؟
وہ کیسے ہیں؟ بعض اوقات ماں باپ اور دیگر بزرگ بچوں کے سوالات کی کثرت سے اس درجہ تنگ اور پریشان ہوتے ہیں کہ انہیں جھڑک دیتے ہیں جو کہ غلط بات ہے۔ بزرگوں کو اپنے رویے میں تحمل قائم رکھنا چاہیے اور بچوں کے ان سوالات کو خاص اہمیت دینی چاہیے، تاکہ ان کے تجسس کو پنپنے کا موقع ملے جو آگے جاکر بچوں کو موجد اور سائنس دان بناتی ہیں۔
چار سال کی عمر میں بچہ اسکول جانے کے قابل ہوجاتا ہے،اسکول کا ماحول گھر کے ماحول سے بہت مختلف ہوتا ہے یہاں بچے کو کچھ پابندیاں اور کچھ اصول و ضوابط سے واسطہ پڑتا ہے اور یہیں اس کی ابتدائی تعلیم باضابطہ طور پر شروع ہوتی ہیں۔
اسکولوں میں عام طور پر اساتذہ کا رویہ مشفقانہ ذرا کم ہی ہوتا ہے بلکہ بچوں کے ذہن پر ہر لحظہ ان کا خوف طاری رہتا ہے اورخوف وہ عفریت جو بچے کی تعمیری صلاحیتوں کا بدترین دشمن ہے، اساتذہ کا رویہ ایسا ہونا چاہیے کہ بچے کے دل میں خوف کی بجائے ان کے احترام کا جذبہ کار فرما ہو، ہمارے ہاں استادوں کی یہی کوشش ہوتی ہیں کہ وہ جلد از جلد سلیبس کی کتابیں ختم کرلیں۔
حالاں کہ انہیں کتابوں کے بجائے بچے کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے یوں بھی پرائمری تعلیم کو تعلیم سے زیادہ آئندہ کی تعلیم کے لیے تیاری تصور کرنا چاہیے اور اس عمر میں” تعلیم بذریعہ کھیل“کے اصول پر عمل کرنا چاہیے۔