’’لوگ کہتے ہیں جس کے ماں باپ نا ہوں وہ یتیم مسکین ہوتا ہے، مگر مجھے لگتا ہے جس لڑکی کے ساس سسر نا ہوں وہ سسرال میں یتیم ہو جاتی ہے۔
لگتا ہے کوئی خیر خیریت لینے والا ہی نہیں رہا۔ نا کسی کو ہمارا انتظار رہتا ہے۔ہر جمعہ کو خوشی ہوتی کہ آج امی سے ملنے جانا ہے وہ انتظار کر رہی ہوں گی۔ اگر کبھی نا جا سکتی تو بوڑھی نظروں میں بےقراری بھی ہوتی اور خفگی بھی۔
سسر بہت ضعیف ہوگئے تھے انہیں ہم یاد ہی نا ہوتے کہ یہ ہماری سب سے چھوٹی بہو ہے۔ ہم ازراہ مذاق کہتے ابا جی بتائیں ہم کون ہیں۔ نام نا بتا پاتے تو کہتے کہ میری بیٹی ہو اور ہم سب مسکرا اُٹھتے۔ بس یادوں کے حوالے کر کے دونوں خالق حقیقی سے جا ملے۔
بڑوں کے جانے سے سسرال کا رمضان اور عید تنہا ہو گئی،
فکر کرنے والی نگاہیں نا رہیں،
دکھ بیماری پر تڑپ اٹھنے والے دل نا رہے۔
محبتوں کو جذب کرنے والے دامن نا رہے۔
آنسو پونچھنے والے ہاتھ نا رہے۔
مجسم دعا وجود نا رہے
اور… پھر جب میکہ بھی دوسرے شہر کا ہو تو تنہائیوں کے دکھ کہیں دل کے اندر تک اترتے چلے جاتے ہیں۔