• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’افطار پارٹی‘‘ دکھاوے اور شو شا میں نہ پڑیں

قرۃ العین فاروق

جمیل صاحب کی فیملی اپنی خوش اخلاقی کی وجہ سے سارے خاندان میں مشہور تھی جو بھی ان کے گھرآتا وہ اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے، بہت خوش اخلاقی سے پیش آتے۔ جمیل صاحب کی سب سے چھوٹی بیٹی عالیہ کو اپنے خاندان پر بہت ناز تھا وہ ہر کسی کو اپنے والد کی خدمت خلق کے بارے میں بتاتی رہتی تھی، اس کی اس عادت سے گھر والے بھی پریشان تھے۔

عالیہ کے والد اس کو سمجھاتے تھے کہ سب کے سامنے اس طرح تعریف کرنا یا بڑائی جتانا اچھی بات نہیں ہے، ایسا کرنے سے انسان اپنی عزت دوسروں کی نظروں میں کھو دیتا ہے، مگر عالیہ کو یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی۔رمضان کا آغاز ہوئے چند دن ہوئے تھے کہ اس نے اپنے والد سے گھر پر شاندار افطار کرنے کی فرمائش کی۔ 

والد نے کہا کہ افطار ضرور کرو،مگر دکھا وا اور شوشا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ چیز اللہ کو قطعاً پسند نہیں۔ اگلے دن عالیہ کی سہیلی منیرہ کے گھر افطار تھی۔ عالیہ اپنی امی کے ساتھ افطار میں گئی تو وہاں کوئی خاص اہتمام نہیں تھا، جس کی وجہ سے عالیہ اپنی امی کے سامنے شرمندہ ہوئی ۔’’ منیرہ بس یہ اہتمام کیا ہے‘‘ عالیہ نے عجیب سے لہجے میں منیرہ سے پوچھا۔’’ہاں!عالیہ اتنی زیادہ گرمی ہے کچن میں زیادہ دیر کام کرنا آسان نہیں ہے امی اور مجھ سے جتنا ہوسکا ہم نے کرلیا ۔

اب دکھا وا تو ہمارے اندر ہے نہیں ۔ یہ بتائو تم نے دہی بڑے چکھےمیری دادی کی اسپیشل ترکیب ہے ،امی نے انہیں سے بنانا سیکھے ہیں۔ باقی سہیلیاں منیرہ کی امی کے بنائے ہوئے دہی بڑوں کی تعریف کرنے لگیں انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا کہ انہوں نے زیادہ اہتمام نہیں کیا۔ ’’میں نہ ہی آتی تو اچھا تھا‘‘ عالیہ نے فرزانہ سے کہا۔’’ امی کو بھی ساتھ لے آئی شرمندگی ہو رہی ہے‘‘۔ کیوں کیا ہوا، کس بات کی شرمندگی ،فرزانہ اور کلثوم نے ایک ساتھ کہا، پاس سے گزرتی منیرہ نے بھی یہ جملہ سنا تو جاتے جاتے رک گئی اور ان تینوں کی باتیں سننے لگی۔

میرا مطلب ہے کہ منیرہ تو فون پر کہہ رہی تھی کہ اس نے بہت سے لوگوں کو بلایا ہے ، میں سمجھی کوئی شاندار افطار ہوگی، مگر یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں۔ عالیہ کسی کی دعوت پر ایسی باتیں کرنا اچھی بات نہیں ،تمہیں اپنے اوپر اتنا مان ہے تو خود کرلو شاندار افطار۔ یہ کہہ کر منیرہ باقی مہمانوں کے پاس چلی گئی۔ عالیہ کی امی ان سب کی باتیں سن رہی تھیں اور شرمندہ بھی ہو رہی تھیں کہ انہوں نے عالیہ کی کیسی تربیت کی ہے۔

چند دن بعد عالیہ نے اپنی تمام سہیلیوں کو افطاری پر مدعو کیا۔دوپہر تک عالیہ کو افطاری کا اہتمام نظر نہیں آیا تو اُس نے اپنی امی سے کہا ، میں نے اپنی سہیلیوں کو افطاری پر بلایا ہے، آپ نے ابھی تک کوئی خاص اہتمام نہیں کیا ۔ اُس کی امی نے کہا ،کچھ چیزیں میں گھر پر بناؤں گی ، سموسے جلیبی بازار سے آجائیں گے۔ بس، اتنی سی چیزیں۔ عالیہ نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔ ہاں یہ بھی کافی ہیں اور ویسی بھی جس طر ح کی افطار آپ دینا چاہ رہی ہیں ویسی تو بالکل نہیں ہو گی ۔ہم دکھاوا اور شوشا بالکل نہیں کریں گےانسان کا اخلا ق اور خلوص سب کچھ ہوتا ہے۔

امی اگر آپ کا افطاری بنانے کا دل نہیں چاہ رہا تو نہ بنائیں میں دوستوں کو کسی ہوٹل میں لے جاتی ہوں، تاکہ ان سب کے سامنے شرمندگی تو نہ ہو ‘‘ یہ کہہ کر عالیہ جلدی سےاپنے والد کے پاس گئ اور ہوٹل میں افطار ی کرنے کی اجازت مانگی۔ اس کے والد سمجھ گئے کہ یہ ضرور اپنی سہیلیوں کے سامنے دکھاوا کر ناچاہ رہی ہے، انہوں نے اسے بہت سمجھایا کہ اس طرح دکھا وا کرنا اچھی بات نہیں ہے۔

یہ کام تم گھر پر بھی بہت اچھے سے کرسکتی ہو۔ بس ابو مجھے اور کچھ نہیں سننا آپ مجھے ہاں میں ا جازت دیں گے، اور میں اپنی ساری سہیلیوں کو کہہ بھی چکی ہوں تو اچانک سے بغیر کسی وجہ کے منع کرنا صحیح نہیں ہے نا آپ خود سوچیں ‘‘ آخر عالیہ نے اپنے والد کو ہوٹل میں افطار دینے کے لیے قائل کر ہی لیا۔ شام کو عالیہ نے ہوٹل میں اپنی سہیلیوں کو ایک شاندار افطار دی۔ ’’عالیہ تم نے اتنا کچھ منگوا لیا، اتنا کھانا کیسے کھائیں گے، ذائقہ بھی اچھا نہیں ہے۔ اس سے اچھا ذائقہ تو منیرہ کے گھر کے کھانوں کا تھا۔ عالیہ چپ چاپ بیٹھی سب کی باتیں سن رہی تھی وہ سوچ رہی تھی کہ اتنا کچھ کر کے بھی ان سب کو میری افطار اچھی نہیں لگی اور منیرہ کے گھر کے چند کھانے، میری افطار سے بازی لے گئی۔

اس وقت عالیہ کو اپنے والدین کی کہی ہوئی باتیں یاد آئیں۔ وہ اور شر مندہ بھی ہورہی تھی کہ اس نے کیوں اتنا کھانا منگوایا۔ اُس وقت اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اُس نے سوچا، واقعی، یہ جن کے لیے اہتمام کیا، اُنہیں تو کھانا ہی پسند نہیں آیا وہ تو منیرہ کی سادہ سی افطار کا ذکر کرتی رہیں۔ اس کے بعد عالیہ نے اپنے آپ کو بدل لیا اور دکھاوے، شوشا سے دور ہوگئی۔