عورت اگر پرندے کی صورت میں خلق ہوتی تو ضرور ’’مور‘‘ ہوتی ۔ اگر چوپائے کی صورت میں خلق کی جاتی تو ضرور ’’ہرن ‘‘ہوتی۔ اگر کیڑے مکوڑے کی صورت میں خلق کی جاتی تو ضرور ’’تتلی ‘‘ہوتی لیکن وہ انسان خلق کی گئی ہے تاکہ ’’وہ ماں، بہن اور عشق بنے‘‘۔
اس حد تک نازک مزاج کہ ایک پھول اسے راضی اور خوش کر سکتا ہے۔اور ایک لفظ اسے مار دیتا ہے’’تو پس اے مردوں! خیال رکھو! عورت تمہارے دل کے نزدیک بنائی گئی ہے ،تاکہ تم اس کو اپنے دل میں جگہ دو تعجب آور ہے! کہ عورت بچپن میں اپنے ماں باپ کے لیے برکت کے دروازے کھولتی ہے، جوانی میں شوہر کا ایمان کامل کرتی ہے اور جب ماں بنتی ہے تو جنت اس کے قدموں تلے ہوتی ہے۔
ڈاکٹر علی شریعتی