• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالت 24 گھنٹے، انگلی نہ اٹھائیں، آئین کے تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں، چیف جسٹس، 15 ہزار لوگ جمع کر کے فیصلوں پر تنقید کریں گے، تو ہم فیصلے کیوں کریں، سپریم کورٹ

اسلام آباد (اے پی پی، جنگ نیوز) چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین کے تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں، اپنا کام کرتے رہے ہیں.

 یہ 24 گھنٹے کام کرنے والی عدالت ہے، کسی کو اس پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں، عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیئے کہ دس پندرہ ہزار لوگ جمع کر کے عدالتی فیصلوں پر تنقید کی جائے تو فیصلے کیوں کریں.

 آئین کی خلاف ورزی ہو تو نتیجہ کیا نکلتا ہے، کیا ایسی خلاف ورزی پر کوئی ہنستے کھیلتے نکل جائے یا اسے خمیازہ بھگتنا چاہیے،پارلیمنٹ موجود ہے تو تاحیات نااہلی کا فیصلہ عدالت سے کیوں کرانا چاہتے ہیں، آدھے لوگ مانیں گے آدھے نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مخالف پارٹی کو ووٹ دینے کیلئے مستعفی ہونا زیادہ معتبر ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ پارٹی سربراہ کا اختیار ہے منحرف رکن کیخلاف کارروائی کرے،عدالت سیاسی بحث میں شامل کیوں ہو۔

پیر کو سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔

سماعت کے آغاز میں ایڈشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت سے استدعا کی کہ ابھی تک نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی نہیں ہوسکی،عدالت سے استدعا ہے کہ نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی کا انتظار کیا جائے ۔

 چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ صدارتی ریفرنس میں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں،نئے اٹارنی جنرل نے کوئی موقف دینا ہوگا تو دے دینگے ،ایک درخواست تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی دائر کر رکھی ہے، یہ آئینی بحث کا مقدمہ ہے۔

اس دوران تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ تحریک انصاف کی درخواست پر نوٹس جاری کئے جائیں ۔ جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ درخواست جس ایشو سے متعلق ہے اس پر عدالت میں بات ہو رہی ہے،جن کو نوٹس کرنا ہے وہ تمام فریقین کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے اپنے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ پارٹی سے انحراف رکن اسمبلی کے حلف کی خلاف ورزی ہے،آرٹیکل 95 کا سوال ابھی عدالت کے سامنے نہیں ہے،آرٹیکل باسٹھ ون ایف کی تشریح میں عدالت تاحیات نااہلی قرار دے چکی ہے،سینیٹ الیکشن کے بعد بھی ووٹ فروخت ہورہے ہیں، آئین کی تشریح کرنا عدالت کا ہی کام ہے۔

 اس دوران عدالتی استفسار پر بابر اعوان نے موقف اپنایا کہ میں سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے دلائل کسی صورت نہیں اپناؤں گا، خالد جاوید خان نے دلائل میں قلابازیاں کھائی تھیں،ہماری درخواست کا میمو دیکھ لیں، عدالت صدارتی ریفرنس پر دلائل کیلئے وقت دے۔

 چیف جسٹس نے عمر عطا بندیال نے اس موقع پر بابر اعوان کومخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ معذرت کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ کی جماعت ٓڈیو وڈیو معاملے پر سنجیدہ نہیں تھی، ہمیں مایوسی ہوئی ہے کہ آپکی جماعت نے الیکشن کمیشن میں درخواست دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق عمل نہیں کیا ،میں کوئی شکایت نہیں کر رہا سیاسی جماعتوں سے درخواست کر رہا ہوں کہ پارلیمانی جمہوریت کا دفاع کریں.

آپکے دو ارکان اسمبلی الیکشن کمیشن گئے لیکن آپ کی جماعت نہیں گئی، ہمیں کہا جاتا ہے کہ ازخود نوٹس لیں، سپریم کورٹ ازخود نوٹس لیے جانے کا طریقہ کار طے کر چکا ہے، یہ پارٹی سربراہ کا اختیار ہے کہ منحرف رکن کے خلاف کاروائی کرے،ممکن ہے کہ پارٹی سربراہ کوئی کاروائی نہ کرے،ممکن ہے کہ انحراف کرنے والا اپنے عمل کی وضاحت دے۔اس دوران بی این پی مینگل کے وکیل مصطفیٰ رمدے نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ صدر مملکت نے ریفرنس میں عدالت سے آئین دوبارہ لکھنے کا کہا ہے.

آرٹیکل تریسٹھ اے بالکل واضح ہے،کیا عدالتی اختیارات میں کمی کی آئینی ترمیم پر پارٹی پالیسی سے اختلاف جرم ہو گا،مستعفی ہونے جیسا انتہائی اقدام واحد حل کیسے ہو سکتا ہے،پارٹی سربراہی کی پابندی کرنا غلامی کرنے کے مترادف ہے،جس ریفرنس میں آڈیو وڈیو کا ذکر کیا گیا اس پر حکومت نے خود کچھ نہیں کیا.

بلوچستان میں حکومت تبدیل ہوئی وفاق نے کچھ نہیں کیا،اسلام آباد اور پنجاب میں جو ہوا وہ بھی عدالت کے سامنے ہے،عدالت کو سیاسی معاملات میں دخل اندازی کا کہا جا رہا ہے،ریفرنس سے لگتا ہے آئین میں نقص نہیں، نقص ہم میں ہے،عدالت کے خلاف سنجیدہ قسم کی مہم چلائی جا رہی ہے،عدالت کو مفروضوں کی بنا پر غیر ضروری طور پر سیاسی عمل میں دھکیلا گیا یے۔

جسٹس جمال خان نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ انحراف کی اجازت ہو کچھ چاہتے ہیں نہ ہو،آج کل آسان طریقہ ہے دس ہزار بندے جمع کرو اور کہو میں نہیں مانتا,پارلیمان نے تاحیات نااہلی کا واضح نہیں لکھا،پارلیمنٹ نے یہ جان بوجھ کر نہیں لکھا یا غلطی سے نہیں لکھا گیا،پارلیمنٹ موجود ہے دوبارہ اس کے سامنے پیش کردیں،عدالت کے سر پر کیوں ڈالا جارہا ہے.

پارلیمنٹ کو خود ترمیم کرنے دیں، آرٹیکل تریسٹھ اے سے تاحیات نااہلی ہوئی تو آرٹیکل 95 کی کیا اہمیت رہ جائے گی، کیا عدالت اپنی طرف سے تاحیات نااہلی شامل کر سکتی ہے، اگر کوئی معزز رکن اپنے عمل کی وضاحت کردے تو کیا ہوگا۔ جسٹس منیب اختر نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ آئینی ترمیم میں ووٹ نہ دینا اور مخالف پارٹی کو ووٹ دینا الگ چیزیں ہیں،مخالف پارٹی کو ووٹ دینے کیلئے مستعفی ہونا زیادہ معتبر ہے ،پارلیمانی پارٹی کے فیصلے سے اختلاف ہے تو الگ ہو جائیں گے.

ضمنی الیکشن آزاد حیثیت سے لڑ کر واپس آیا جاسکتا ہے، آرٹیکل تریسٹھ اے اور پچانوے ایک دوسرے کو کیسے غیر موثر کرتے ہیں،آرٹیکل پچانوے اور آرٹیکل تریسٹھ اے میں توازن پیدا کرنا ہو گا،کونسل چاہتے ہیں عدالت قرار دے کہ عدم اعتماد میں ہر رکن کو آزادانہ ووٹ دینے کا حق ہے.

 ارٹیکل تریسٹھ اے کو ارٹیکل 62 اور 63 کیساتھ تو ملا کر ہی پڑھا جاسکتا ہے،پارلیمانی جمہوریت کا حسن ہی اکثریت ہوتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جسے آئین نے منحرف قرار دیا ہے، آپ اسے معزز کیسے بنارہے ہیں،ارٹیکل پچانوے پارٹی سے انحراف کرنے کے رحم و کرم پر نہیں ہوتا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے ہیں کہ آئین کی خلاف ورزی کوئی چھوٹی بات نہیں،کچھ لوگ تو فوراً آرٹیکل 6 پر چلے جاتے ہیں، ہم نے دیکھنا ہے جب آئین کی خلاف ورزی ہو اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، کیا آئینی خلاف ورزی پرکوئی ہنستے کھیلتےگھنٹی بجاکر نکل جائے یا آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ بھگتنا چاہیے۔

اہم خبریں سے مزید