یسریٰ اصمعی
باجی یہ علینہ کی شادی کا دعوت نامہ ہے ۔آئیں گی ناں ،’’دو دن پہلے تو کارڈ دیا ہے تم نے ۔ ہم کوئی ایسے گرے پڑے ہیں جو ایسے ایمرجنسی بلاوے پر دوڑے چلے آئیں گے‘‘ ۔ ’’باجی وہ شادی کے ہزاروں کاموں کی بھاگ دوڑ میں ذرا دیر ہو گئی‘‘۔ سجاد صاحب بڑی بہن کے سامنے گھگھیا کر بولے ۔’’دیکھیں گے‘‘۔ نجمہ بیگم نے نخوت سے بھائی کو دیکھتے ہوئے ناک چڑھا کر جواب دیا۔’’ بات سنو تم نے تو ندیم بھائی کی بیماری کی اطلاع تک دینا گوارا نہ کیا ۔ ہم کو تو بالکل ہی پرایا کردیا‘‘۔’’ نہیں بھائی وہ ان کی طبیعت اچانک ہی اتنی بگڑی کہ کچھ سمجھ ہی نہیں آیا‘‘۔
شہناز نے عین آئی سی یو کے دروازے پر بہن بہنوئی کی خفا صورتیں اور ترش لہجے میں کیے گئے شکوہ پر بوکھلا کر کہا۔’ ’رہنے دو جن کو اپنا سمجھتی تھیں ان کو تو اطلاع کر ہی دی تھی‘‘۔ دوسری جانب سے جملہ داغا گیا۔ اور شہناز جو پہلے ہی شوہر کے اچانک ہارٹ اٹیک سے پریشان تھی بس شکلیں دیکھتی رہ گئی۔’’راشد چچا، رکیں کھانا کھا کر جائیے گا ‘‘۔ باپ کے جنازے کو تازہ تازہ کندھا دے کر آئے عظیم نے رشتے کے چچا کو روکتے ہوئے کہا۔ نہیں بھئی میت کے گھر میں کھانا کھانا برا سمجھتے ہیں ہم ۔ غم سے نڈھال عظیم جاتے ہوئے چچا کو تاسف سے دیکھتا رہ گیا۔’’خالہ امی مجھے اسکالر شپ ملی ہے ‘‘۔ علی نے جوش سے بڑی خالہ کو بتایا۔’’ ہاں پتا چلا تھا تمہارے پھوپھا ہیں ناں تمہارے کالج میں انہوں نے ہی کوشش کر کے دلوائی ہو گی‘‘۔
خالہ کی بات سن کر علی کی خوشی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی نہیں خالہ مجھے اچھے اکیڈمک ریکارڈ کی وجہ سے ملی ہےاسکالر شپ۔ بچے نے گھبرا کر صفائی پیش کی۔ رہنے دو۔ خالہ نے ایک طنزیہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔یہ لہجے ،یہ مناظر، یہ جملے ،کرداروں کی تبدیلی کے ساتھ کچھ کچھ جانے پہچانے سے ہیں ناں؟ جی ہاں کیوں کہ یہ ہماری ہی روز مرہ زندگی کے البم سے ہمارے اپنے بدصورت رویوں کی چند تصاویر ہیں کبھی ہم خود ان رویوں کا نشانہ بنتے ہیں اور کبھی اپنی ذات سے دوسروں کو اس کا نشانہ بناتے ہیں۔ ہمارا کڑواہٹ سے بھرپور یہ شکایتی انداز گفتگو آئے دن نہ جانےکتنے لوگوں کے دل چھلنی کرتا ہے۔ ہمیں احساس تک نہیں ہو پاتا۔
زبان کی یہ تلخی فقط اس وقت محسوس ہوتی ہے جب ہم خود ایسے ہی کسی رویے کا شکار ہو کر درد سے بلبلا جاتے ہیں۔ سامنے والے کو موقع محل دیکھے بنا شرمندہ کر دینا۔ دفاعی پوزیشن میں لے آنا۔ وقتی طور پر تو ضرور خوشی دے سکتا ہے لیکن یقین کریں آپ کا یہ رویہ سامنے والے سے زیادہ خود آپ کو آپ کی شخصیت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ایک طرف ہم تیزی سے اپنے حلقہ احباب ،رشتہ داروں قرابت داروں میں غیر مقبول ہونے لگتے ہیں۔ ہمارے اپنے پیارے رشتے ہمارے اس انداز سے گھبرا کر ہم سے دور ہونے لگتے ہیں تو دوسری طرف یہ کڑواہٹ منفیت شکایتی انداز فکر اور اذیت پسندی جیسی روحانی بیماریاں ہماری ذات کا مستقل حصہ نامحسوس انداز میں بن جاتیں ہیں۔
سوچیں یہ چیز بذات خود کس قدر تکلیف دہ ہے کہ منفی انداز فکر کا گھن اس حد تک ہماری ذات کو لگ جائے کہ نہ ہم خود کسی کی خوشی میں خوش ہو سکیں نہ کسی کے دکھ کو محسوس کر نے کے قابل رہیں۔ اس طرح کے رویے کے حامل افراد اپنی زبان کے فتنے کا شکار آہستہ آہستہ خود ہی ہونے لگتے ہیں، ہر لمحہ دوسروں کو کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کا شوق انسان کو خود بھی مطمئن اور خوش نہیں رہنے دیتا۔ زبان کی حفاظت کا درس ہمارا مذہب بھی ہمیں بار بار دیتا ہے پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ،جس کے ہاتھ اور زبان سے اس کادوسرا بھائی محفوظ نہ ہو۔
ایک اور موقع پر پیارے نبی ﷺ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ تمہارے جسم میں یہ زبان کا ایک ٹکڑا ایسا ہے ،جس کی وجہ سے تم جہنم میں ڈالے جاؤ گے۔ زبان کا غلط بے سوچے سمجھے استعمال ہماری دنیا آخرت دونوں کو برباد کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کم بولیں، اچھا بولیں، کبھی کچھ ناگوار بھی گزرے تو خاموشی بھی اختیار کی جا سکتی ہے ضروری نہیں کہ موقع محل دیکھے بنا سامنے والے پر اپنی ناگواریت فورا ظاہر کر دی جائے۔ ہم نہیں جانتے کے سامنے موجود فرد اس وقت کس کیفیت سے گزر رہا ہے۔
ہمارا کہا ہوا ایک جملہ اس کے دل کو کیسے چھلنی کر کے رکھ سکتا ہے۔ کوشش کریں کسی کی خوشی میں خوش نہیں ہو سکتے، کسی کے دکھ کو کم نہیں کر سکتے، کسی کی پریشانی میں مدد نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنے الفاظ اور زبان سے کسی کی خوشی کرکری بھی نہ کریں کسی کا دکھ مزید بڑھائیں بھی نہ کسی کی پریشانی کے وقت میں اس کو دفاعی جملے سوچنے اور اپنی صفائیاں پیش کرنے پر بھی مجبور نہ کریں۔ ”گڑ نہیں دے سکتے تو کم از کم بات گڑ جیسی کریں۔ اس کا بھی اجر ہے“۔