• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پر اُس وقت بڑی افتاد آن پڑی تھی جب اکتوبر 1958 میں ایوبی مارشل لا نافذ ہوا اَور 1956 کا دستور منسوخ کر دیا گیا جو دونوں بازوؤں کی سیاسی قیادتوں نے ایک عمرانی معاہدے کے طور پر منظور کیا تھا۔ صدر اَیوب خان نے جسٹس شہاب الدین کی سربراہی میں ایک آئینی کمیشن قائم کیا جس کی طرف سے آئین سازی کے لیے تجاویز طلب کی گئیں۔ چالیس سوالات پر مشتمل اُس دستاویز کا جواب دینے کے لیے انیس نمائندہ علما کا اجتماع جامعہ اشرفیہ، لاہور میں ہوا اَور اتفاقِ رائے سے ایک جامع جواب مرتب کیا گیا جس کی مولانا مودودی نے ڈرافٹنگ کی۔ جناب اے کے بروہی نے اپنے مضمون میں وہ جواب نقل کیا ہے اور اُسے غیرمعمولی اہمیت دی ہے:

’’ہم اپنا فرض ادا کرنے میں سخت کوتاہی کریں گے اگر اِس کام کے مرحلۂ آغاز ہی میں کمیشن کو اَور آگے اُن اربابِ اقتدار کو جن کے ہاتھ میں کمیشن کی رپورٹ پر فیصلہ صادر کرنے کا اختیار ہے، دو باتوں سے صاف صاف آگاہ نہ کر دیں۔ اوّل یہ کہ پاکستان عام مسلمانوں کی قربانیوں سے بنا ہے اور اللہ کے فضل و کرم کے بعد اگر کوئی چیز اِس کی بقا و اِستحکام کی ضامن ہے، تو عام مسلمانوں کا یہ عزم ہے کہ اِس مملکت کو باقی رکھا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ نئے دستور سے عام مسلمان مایوس ہو جائیں اور اُن کے اندر اِسے زندہ رَکھنے کے لیے کٹنے اور مرنے کا جذبہ باقی نہ رہے۔ دوم یہ کہ چند اونچے درجے کے سرکاری ملازمین اور چند خوشحال طبقات کے سوا عام مسلمان اِس ملک کو ایک اسلامی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں جس کا قانون اسلامی ہو، جس کا نظام اسلامی ہو، جس کی تعلیم اسلامی ہو اَور جس کی تہذیب اسلامی ہو۔ اِسی مقصد کے لیے مسلمانوں نے جان، مال اور آبرو کی قربانیاں دی تھیں اور اِنہی کے لیے وہ بقائے پاکستان سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ اِس دلچسپی کو ختم کر دینے سے بڑھ کر پاکستان کے ساتھ اور کوئی بڑی دشمنی نہیں ہو سکتی۔ عام مسلمانوں کو مایوس اور بددل کر دینے کے بعد وہ مٹھی بھر لوگ اِس مملکت کو کیا سہارا دَے سکیں گے جو اِسلام کے نام سے گھبراتے ہیں۔ اِن دوحقیقتوں کو سمجھ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیجیے کہ آپ جو دَستور بنانا چاہتے ہیں، اُس میں کسے مطمئن کرنا آپ کے نزدیک زیادہ اَہمیت رکھتا ہے۔‘‘

علما کی طرف سے جرأتِ ایمانی میں ڈھلے ہوئے اِس جواب سے صدر اَیوب خان کو، جو اَیک سیکولر نظامِ حکومت قائم کرنا چاہتے تھے اور اِسی لیے اُنہوں نے 1962 کے دستور میں ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ سے ’اسلامی‘ کا لفظ حذف کر دیا تھا، جلد ہی اسلامی دفعات شامل کرنے، ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کا نام برقرار رَکھنے، سیاسی جماعتیں اور بنیادی حقوق بحال کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ جناب اے کے بروہی کے بقول اِس کا سہرا مولانا مودودی کے سر جاتا ہے۔

مَیں نے 1962 میں اُن کا انٹرویو کیا۔ وہ اَپنی گفتگو میں ’صالحین کی جماعت‘ اور اللہ کی زمین پر اللہ کی بادشاہت اور طاغوتی طاقتوں کے الفاظ بار بار اِستعمال کرتے رہے جن سے یہ تاثر ملا کہ وہ مولانا مودودی کی تصانیف کا باقاعدگی سے مطالعہ کر رہے ہیں۔

پھر وہ 1964 میں ایک اہم رُوح پرور تجربے سے گزرے جس نے دل و نگاہ کی بیداری کو عمر بھر کی سرشاری میں تبدیل کر دیا۔ ہوا یہ کہ6 جنوری 1964 کو وفاقِ پاکستان کی دونوں صوبائی حکومتوں نے جماعتِ اسلامی کو غیرقانونی جماعت قرار دَے دیا اور اُس کی مجلسِ شوریٰ کے تمام ارکان گرفتار کر لیے۔ جناب اے کے بروہی نے اپنے معرکۃ الآرا مضمون میں لکھا ہے کہ مولانا مودودی نے جیل سے مجھے پیغام بھجوایا کہ اُنہوں نے حکومتوں کے احکام کو عدالتوں میں چیلنج کرنے کے لیے فریضہ مجھے سونپنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک اہم سیاسی جماعت کے سربراہ کی طرف سے اِس اعتماد کا اظہار میرے لیے بڑا اِعزاز تھا، چنانچہ مَیں نے بلامعاوضہ مقدمہ لڑا اَور تمام اخراجات خود برداشت کیے۔ اِس دوران مجھے جماعت کے کچھ سرکردہ کارکنوں سے ملنے جلنے کا موقع ملا، تو پتہ چلا کہ اُنہوں نے کس قدر خلوص اور سرگرمی سے اپنے آپ کو جماعت کے کاموں کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ مَیں خاص طور پر ایک عظیم کارکن کی جانفشانی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے پٹیشن کا جو مسودہ تیار کیا، وہ 125 فل اسکیپ صفحات پر ٹائپ ہوا تھا۔ عدالتوں میں بہت ساری نقول پیش کرنے کے لیے مَیں اُسے چھپوانا چاہتا تھا۔ اُس وقت کراچی میں بارہ سو سے زائد چھاپہ خانے تھے، مگر حکومت کے خوف سے کوئی بھی اُسے چھاپنے کے لیے تیار نہ ہوا۔ اُس مشکل موقع پر جماعت کے ایک مخلص کارکن بہت کام آئے۔ اُنہوں نے رات دن کا خاصا حصّہ لگاتار بیٹھ کر ایک ٹائپ مشین سے پوری پٹیشن اور اُس کے متعلقہ ضمیموں کے اسٹینسل ٹائپ کیے۔ پھر سائیکو اسٹائل مشین کے ذریعے وافر تعداد میں نقلیں تیار کیں جبکہ اُن کا اکلوتا بیٹا بسترِ علالت پر پڑا تھا۔ اُنہیں یقین تھا کہ مَیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کام کر رہا ہوں، اِس لیے میرا رَب میرے بچے کو شفا عطا کرے گا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کے کمرے اور برآمدے جماعت کے کارکنوں سے بھرے رہتے تھے۔

بروہی صاحب نے مقدمے کی سماعت کے دوران گرفتار اَرکان کی حاضری کی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں دی جو منظور ہو گئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا جب مَیں نے مولانا مودودی کو اَپنے سرکردہ رَفیقوں کے ساتھ دیکھا۔ جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ اُن کے بیٹھنے کا پُرسکون انداز تھا۔ وہ اَیک شانِ بےنیازی سے مقدمے کی کارروائی سنتے رہے۔ اُن کی شخصیت بڑی باوقار تھی۔ سپریم کورٹ میں بروہی صاحب مقدمہ جیت گئے اور فاضل چیف جسٹس اے آر کارنیلیس کا تاریخ ساز فیصلہ سامنے آیا۔

جناب اے کے بروہی رقم طراز ہیں کہ اُس کے بعد یہ معمول ہو گیا کہ جب وہ لاہور آتے یا مولانا مودودی کراچی تشریف لاتے، تو اکثر اُن سے ملاقاتیں ہوتیں اور یوں روز بروز میری اُن سے وابستگی بڑھتی گئی۔ اِس والہانہ وابستگی کے چشمِ فلک نے یکے بعد دیگرے کئی ناقابلِ فراموش مناظر دیکھے۔ تاریخی تناظر میں اُن کا ذکر موقع کی مناسبت سے آگے آئے گا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین