• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عائزہ صغیر

عام طور پر ہمارے معاشرے میں عورت کو نہ صرف انتہائی کمزور سمجھا جاتا ہے، بلکہ اس کی شخصیت کو بھی کمزوری سے وابستہ بیان کیا جاتا ہے لیکن جب عورت کس سے حسد اور نفرت کرتی ہے تو اُس وقت اس کی طاقت کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ اس موجودہ دور میں جہاں ہر طر ف نفسا نفسی ہے، ہر دوسرے دن بریکنگ نیوز کے نام پر ایک برائی کو منظر عام پر پیش کیا جارہا ہے، پھر بھی حسد اور جلن کی آگ بجھ نہیں رہی۔ وہ ایک دوسرے کا گھر اُجاڑنے کی منصوبہ بندی کرنے ہی میں مصروف ہوتی ہیں۔ 

عورت معاشرتی اکائی ہے، گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی تربیت کی ذمے داری انجام دے رہی ہے۔ لیکن اس کے برعکس وہ گھریلو جھگڑوں، ساس، نندوں کی لڑائیوں سے ہی باہر نہیں نکل پاتیں۔ اگر کوئی خاتون نوکری پیشہ ہو تو دوسری خواتین اسے جینے نہیں دیتیں۔ اُس سے حسد کرنے لگتی ہیں۔ دراصل کسی سے نفرت کرنا اور حسد کی آگ میں جلنا خود اپنی ذات کے لیے نقصان دہ ہے۔

بہتر ہوگا کہ اپنی صلاحیتوں قابلیتوں کے بل پر آگے بڑھیں۔ دوسروں کی جن باتوں سے آپ حسد کرتی ہیں غور کریں کہ وہ ایسا کیوں کررہی ہیں۔ اُن کی خوبیوں پر نظر رکھیں اور حسد کی آگ میں جلتے ہوئے خود کو نقصان پہنچانے کے بجائے اپنی اصلاح کریں۔ دوسروں کی خوبیوں کو اپنانے کی کوشش کریں۔ ان کی اچھی باتوں سے زیادہ سے زیادہ سیکھیں، پھر دیکھیں کہ خود بخود آپ میں بھی اچھی تبدیلی آتی جائے گی۔

اگر کسی خاتون کا اخلاق اچھا ہے اور لوگ اسی وجہ سے اس سے محبت کرتے ہیں تواس میں حسد کرنے یا جلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ بھی اپنے اخلاق میں بہتری لاسکتی ہیں۔ مثبت سفر کا آغاز آپ کے اپنے عمل پر منحصر ہے۔ انسان جب چاہیے اور جہاںسے چاہیے منفی سوچ کو رد کرکے مثبت سفر کا آغاز کرسکتا ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ اپنے آپ کاجائزہ لیں، ایسی باتوں کی طرف توجہ دیں جن سے دوسرے آپ کے قریب رہنا پسند کرتے ہوں۔

مائوں کو چاہیے کہ بیٹیوں کی تر بیت پر خصوصی توجہ دیں، کیوں کہ اس مادیت پرستی کے دور میں آج کی بچیاں خود سے برتر کلاس کو دیکھ کراُن سے حسد کرتی ہیں اور کبھی خود کو مجبور محسوس کرتی ہیں۔ شادی ہونے میں تھوڑی سی تاخیر ہو جائے تو اپنے آپ کو قصور وار سمجھنے لگتی ہیں۔ آج کی بیٹی کل کی ماں ہے۔ اگر اس ماں کا معاشرتی شعور پختہ ہوگا تو یہ اصلاح نسواں اور ترقی نسواں میں مثبت کردار ادا کرسکے گی۔ اگر آج خواتین اپنی بیٹیوں میں ان اوصاف کو اُجاگر کرتی ہیں تو یقیناً اگلی نسل نہ حسد کے جنگل میں بھٹکے گی اور جلن کی آگ میں جلے گی۔

خواتین اپنی بچیوں کو محبت و انسانیت کا درس دیں اپنی اولاد کی بہتر تربیت سے ثابت کریں کہ منفی رجحانات ان کی اپنی ذات کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ہر دور میں خیر و شر کی قوتیں متصادم رہی ہیں اور رہیں گی، مگر اب وہ وقت آگیا ہے جب عورت کو اپنا مضبوط کر دار ادا کرنا ہوگا اور معاشرے کی بہتری کے لیے جدوجہد اور آواز بلند کرنی ہوگی، کیوں کہ بہتر معاشرے کی تعمیر وہی کرسکتی ہیں کوئی دوسرا نہیں۔ انہیں کے کر دار اور عمل سے یہ معاشرہ سنوار سکتا ہے۔ اب یہ وقت سوچنے کا نہیں بلکہ کچھ کرنے کا ہے۔