ثروت حسان غوری
گزشتہ دنوں ایک محفل میں جانے کا اتفاق ہوا،وہاں بات چل رہی تھی کہ آنے والی لڑکی کو شوہر اور دیگر گھر والوں کی طر ف سے اسپیس ملنی چاہیے ۔فی زمانہ میری نظر میں اس بات کا موقع ملنے کے انتظار میں لڑکیاں یہ جانتے ہوئے بھی ہر دکھ کے بعد خوشی آتی ہے اور ہر رات کے بعد سویرا ،سب قربانی دینے کے بعد اپنا گھر بھی قربان کردیتی ہیں۔ اگر بچّے ہو ں تو یہ صورت ِحال نہ صرف ان کے لیے بلکہ والدین کے لیے بھی گھمبیر ہو جاتی ہے ۔قصّورکس کا ہے ؟یہ نہ سمجھنے والا بہت ہی پرانا مسئلہ ہے ! اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ ’’تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے ‘‘لیکن رئیس امروہوی کے بقول’’ تالی کبھی کبھی ایک ہاتھ سے بھی بج سکتی ہے‘‘۔
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ہاتھ کس کا ہے۔ یہ مسئلہ صرف بر صغیر میں ہی نہیں ہے بلکہ اس کی مثالیں دیگر ممالک میں بھی ملتی ہیں ۔میرا بہترین مشورہ یہ ہے کہ سسرال آنے والی لڑکیاں سنے سنائے منفی خیالات کو اپنے ذہن سے نکال دیں، اچھی سوچ، برداشت اور قربانی کا جذبہ لے کر اس گھر میں پہلا قدم رکھیں ،جسے انشاء اللہ آپ آنے والے وقتوں میں اپنے مثبت رویوں سے ’’میرا گھر‘‘ کہہ سکیں گی۔ دیکھئے میکے اور سسرال میں مشرق ومغرب کا فاصلہ ہے۔ ’’ماضی کو بھلا کر ہی مستقبل کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔‘‘
اچھی زندگی گزارنے کے لیے آپ کو بھی ایسا ہی کرنا ہوگا ۔ ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ ’’زندگی کی کوئی مشکل یا پریشانی مستقل نہیں ہوتی ‘‘، پریشان ہونے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہر دور گزر جاتا ہے ۔دوسروں کو بدلنا تو آپ کےلیے اتنا آسان نہیں، لہٰذا اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کریں۔ یہ بات ذہن میں بیٹھا لیں کہ ’’ایک چپ سو کو ہراتی ہے ‘‘۔ کسی بھی فرد سے یہ توقع رکھنا کہ وہ آپ کے حق میں بدل جائے یا سدھر جائے، اپنا سر دیوار سے مارنے کے مترادف ہے۔لوگ کہتے ہیں جہاں دو برتن ہوں، وہ کھڑکتے ضرور ہیں۔
اگر شوہر ہمدرد ہو اور جیب اجازت دے تو اپنے ہمسفر کے لیے الگ گھر لے لیں۔ ایسے میں لڑکوں کوماں، باپ، بہن، بھائیوں کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے۔ وہ دبے دبے الفاظ میں بھی کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اب اس کی نظریں کسی پراُمید مثبت حل کے انتظار میں اپنی رفیق حیات کی طرف اُٹھتی ہیں۔ ایسے میں آپ کے لیے شوہر کو خوش کرکے اس کے دل میں جگہ بنانے کا اچھا موقع ہے۔ ’’کیوں کہ ،اللہ تعالیٰ نے عورت کو قوت و برداشت کا مجسمہ ایثار وفا کی پتلی اور صبر کا اوتار بنا کر دنیا میں بھیجا ہے۔‘‘
پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ اپنے اچھے رویوں کے نتیجے میں یا قسمت کی دھنی لڑکیاں والدین کی دعائوں کی بدولت سسرال میں اچھی زندگی بھی گزار رہی ہیں۔ والدین تو اپنی ہر بچی کے لیے یہ ہی دعا کرتے ہیں۔ کیوں نہ بے پناہ پیار اور جہیز کے ساتھ ان کو برداشت، قربانی، درگزر اور صبر کا توشہ بھی لڑکیوں کے ساتھ کریں۔ ہمیں لڑکیوں کو گھر بسانے کے گُڑ سکھانے ہیں۔ ہماری دعائوں میں تنگ دل اور سنگ دل لوگوں کی ہدایت کی دعا بھی شامل ہونی چاہیے۔ آمین! اچھے معاشرے کی پہلی منزل صاف اور پرسکون گھر ہیں۔ ’’زندگی میں وہی لوگ قابل پرستش ہیں جو دوسروں کی خطائوں کو درگزر کرتے ہیں۔