• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طاہرہ کاظمی

قبر کی مٹی ابھی گیلی تھی، لیکن پردیس میں رہنے والوں کو تو واپس جانا تھا! اماں نامی داستان کا آخری باب ختم ہو چکا تھا اور پیچھے رہ جانے والوں کو زندگی کی گاڑی پھر سے دھکیلنا شروع کرنی تھی!بجھے بجھے دل سے ہم سامان سمیٹ رہے تھے جب چھوٹی بھاوج کمرے میں داخل ہوئیں۔ کچھ دیر یونہی کھڑی رہیں اور پھر اپنی بند مٹھی ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کھول دی،

’’آپی یہ… یہ‘‘

اس کے چہرے سے ہوتی ہوئی ہماری نظر مٹھی تک گئی…. نازک سی ہتھیلی پہ کچھ چمک رہا تھا۔ پیلی دھات سے بنی ہوئی کانوں میں پہننے والی دو چھوٹی چھوٹی جھمکیاں!

’’اوہ… یہ جھمکیاں… اماں کا واحد زیور…“وہ متاع نایاب ہم نے اپنی ہتھیلی پہ رکھی اور آہستہ آہستہ ہتھیلی نم ہوتی چلی گئی۔ اس نشانی کو آنسوؤں کا غسل تو مل گیا ،مگر یادیں حملہ آور ہو چکی تھیں۔ آہ… یادیں جو ذہن میں کنکجھوروں کی آنکڑے دار ٹانگوں کی طرح پیوست ہو جاتی ہیں اور تب تک نہیں چھوڑتیں جب تک ان یادوں کو مہ وسال کی قید سے آزاد نہ کر دیا جائے۔جب ہم نے ہوش سنبھالا، اماں کو کسی بھی قسم کا زیور، قیمتی یا سستا، دھاتی یا کانچ، پہنے ہوئے نہیں دیکھا۔ محلے میں اماں کی سہیلیوں، دوستوں کی اماں اور تقریبات میں خواتین کو لدا پھندا دیکھنے کے بعد ہم ہمیشہ یہ سوچتے ہماری اماں کس طرح کی عورت ہیں؟ نہ انگلی میں انگوٹھی، نہ کان میں بالی، نہ کلائی میں کنگن، نہ گلے میں مالا اور نہ ہتھیلیوں پہ مہندی کے نقش و نگار!

کسی تقریب میں جانا ہوتا تو وہ نفیس سا لباس پہنتیں، انتہائی گھنے بالوں کا کس کے جوڑا بناتیں، منہ پہ کوئی ہلکی سی کریم ، پاؤں میں آرام دہ جوتا، لیجیے اماں تیار!ہم جو ان کے ساتھ تقریبات میں جانے کے انتہائی شوقین تھے، انہیں دیکھ کے کچھ مایوس سے ہو جاتے۔ دل ہی دل میں کہتے، یہ آخر اپنا زیور کیوں نہیں پہنتیں؟ پھر سوچتے، شاید کہیں بینک کے لاکر میں رکھوا چھوڑا ہے، یا شاید نانی اماں کی حفاظت میں کسی الماری میں بند ہے۔

کتابیں اور رسالے پڑھ پڑھ کے یہ جان چکے تھے کہ خواتین کے پاس قیمتی زیورات کی ایک چھوٹی صندوقچی ہوتی ہے۔ شرلاک ہومز والی ہماری حس یہ سراغ لگانے کے لیے بارہا کچوکے دیتی کہ اماں نے وہ کہاں چھپا رکھی ہے۔ آپا سے پوچھنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کہ وہ بھی اماں کی طرح کچھ بے نیاز سی تھیں۔ آخر ایک دن اماں سے خود ہی سوال جواب کرنے کی ٹھانی،

’’اماں، آپ اپنی صندوقچی کہاں رکھتی ہیں؟‘‘

“کونسی صندوقچی؟” وہ حیران ہو کر بولیں،

’’وہ جس میں قیمتی زیور رکھے جاتے ہیں‘‘

’’کیوں بیٹا ؟ کیوں پوچھ رہی ہو تم؟” وہ مسکرا کے بولیں،

’’مجھے آپ کے زیور دیکھنے ہیں” اشتیاق ہماری آنکھوں سے ٹپک رہا تھا۔

’’کیا کرو گی تم دیکھ کر؟” اماں کی مسکراہٹ گہری ہوتی جا رہی تھی۔

’’بس ایسے ہی، شوق ہے آپ کا زیور دیکھنے کا، مزا آئے گا‘‘

’’ دیکھ لینا جب وقت آئے گا” وہ رسان سے بولیں،

’’لیکن آپ پہنتیں کیوں نہیں؟” ہماری سوئی ابھی تک وہیں اٹکی ہوئی تھی۔

’’ ایک تو مجھے شوق نہیں، دوسرے مجھے زیور سے الجھن ہوتی ہے۔ عجیب سی چبھن پیدا کرتا ہے اور چوڑیوں کی کھنک مجھے پسند نہیں”

’’یہ اماں بھی نا بس…. عجیب و غریب ہی ہیں….. لو چوڑیاں مہندی بھی نہیں پسند…..” ہم نے دل ہی دل میں سوچا۔

’’ اچھا یہ بتائیے کہ آپ نے اپنی شادی پہ کیا کیا زیور پہنا تھا؟” ہمارا انٹرویو جاری تھا۔

ارے، بہت زیور ملا میکے سے، میں بڑی بیٹی تھی۔ بندی ٹیکہ تھا، گلوبند تھا، کانوں کے لئے بڑے جھمکے تھے، کنگن اور انگوٹھیاں تھیں‘‘

ان کی آنکھیں میکے کے نام سے چمک اٹھیں۔

’’ہمارے ابا نے کیا دیا تھا منہ دکھائی میں؟” ہم نے شرارت سے کہا،

’’چل ہٹ، بے شرم کہیں کی! اپنی ماں سے کوئی ایسی باتیں کرتا ہے‘‘

وہ مصنوعی ناراضگی سے بگڑ کے بولیں۔

’’ارے ماں، ایسی باتیں ماں سے ہی تو کی جاتی ہیں‘‘

ہم نے بازو ان کے گلے میں ڈال دیں۔

’’ عجیب بچی ہے بھئی یہ تو، میرے باقی پانچ بچوں میں سے کوئی ایسی باتیں نہیں کرتا‘‘

ایسا اکثر ہوتا اور ہر بار وہ ایک دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں ساتھ لپٹا لیتیں اور ان کے دوپٹے میں منہ گھسا کے ان کی خوشبو سونگھتے ہوئے ہم سوچتے، یہ لمس کس قدر دلفریب ہے کہ پہروں لپٹے رہو اور جی نہ بھرے۔

صندوقچی میں رکھے زیورات دیکھنے کی آرزو پالتے پوستے کچھ بڑے ہوئے تو علم ہوا کہ صندوقچی تو اماں کی زندگی میں وجود ہی نہیں رکھتی اور بھلا ہوتی بھی کیسے کہ سنبھال کے رکھنے کو تو کچھ تھا ہی نہیں۔ گردش مہ سال کی دھول میں بہت کچھ مٹی ہو چکا تھا۔

اب ہم کچھ یوں باتیں کرتے، ’’ارے اماں وہ پٹی والا ٹیکہ ہی میرے لئے سنبھال لیتیں، پرانے زمانے کے زیور کا اس قدر فیشن ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہتیں، ’’مجھے کیا علم تھا کہ میری ایک بیٹی اس قدر شوقین مزاج ہو گی۔ اماں نے اپنی زندگی میں اپنے لئے کبھی کوئی زیور نہیں خریدا۔ نہ جانے کیوں ہمیں موہوم سا شائبہ گزرتا تھا کہ وہ چاہتی ہیں، مگر کہتیں نہیں۔ ہمارا یہ احساس اس قدر شدید تھا کہ جب ہمیں میڈیکل کالج میں اسکالرشپ کی رقم ملی تو ہم نے انہیں بتائے بنا، ان کے لئے پرلز کے جڑاؤ بندے خرید لئے۔

ہمیں آج تک ان آنکھوں کی حیرت یاد ہے،

” کیوں میری بیٹی، کیوں ؟ “

’’بس اماں،میرا دل چاہتا تھا کہ آپ بھی دوسری عورتوں کی طرح سنگھار کریں، زیور پہنیں‘‘

’’میری جان، مجھے ان چیزوں کا شوق ہی نہیں ہے۔ ورنہ کیا تمہارے ابا مجھے بنوا کے نہ دیتے اگر میں کہتی۔ تمہارے بڑے بھائی بھی برسر روزگار ہیں۔ میں چاہتی تو خرید سکتی تھی بیٹا لیکن خواہش ہی نہیں ہے۔ اللہ کے حضور کم سے کم حساب کتاب کے ساتھ حاضری ہو تو بہتر ہے‘‘۔ انتہائی سکون سے جواب ملتا۔ ان کی اس توجیہہ کے باوجود ہمارے دل سے یہ آرزو نہ مٹی کہ ان کے پاس زیور ہو، بھلے پہنیں یا نہ پہنیں۔ ہمارا اگلا تحفہ سعودی عرب سے لائی جانے والی مالا تھی جسے دیکھ کر وہ ہنستے ہوئے کہنے لگیں،

’’بہت مستقل مزاج ہو تم! بچپن سے ایک ہی کہانی سنتی بھی آئی ہو اور دیکھتی بھی، لیکن باز ہی نہیں آتیں، توبہ ہے، بہت سرپھری ہو۔ میری باقی اولاد میں سے ایسے کوئی نہیں کرتا‘‘

اب کیسے بتاتے کہ یہ سرپھرا پن اور یہ مزاج احساس کی ان تاروں سے گوندھا گیا ہے جو مضراب کی ایک ہلکی سی جنبش سے بج اٹھتی ہیں۔بھائیوں کی شادیاں ہوئیں تو سمدھیانے سے انہیں تحفے میں زیور ملا۔ اگرچہ جہیز کے لئے سختی سے منع کیا گیا تھا۔ شادی کے اگلے ہی دن وہ دلہن کے پاس جاتیں، زیور کا ڈبہ اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہتیں،

’’بیٹا تمہارے والدین نے منع کرنے کے باوجود یہ زیور مجھے تحفے میں دے دیا۔ اب بات یہ ہے کہ میں تو شوقین نہیں۔ مجھے تحفہ مل گیا، پسند آیا، ان کی محبت سر آنکھوں پہ۔ لیکن بیٹا اب تم ہی اس کی حقدار ہو کہ تمہارے والدین نے بہت شوق سے خریدا ہے‘‘۔

ہم بہنوں کو بعد میں پتہ چلتا، باقی دونوں تو کچھ نہ کہتیں، مگر ہم کہاں چپ رہنے والے تھے۔ اماں کو چھیڑتے ہوئے کہتے،

’’ارے اماں، کچھ دن تو پاس رکھتیں۔ اور اگر خود نہیں پہننا تھا تو ہمیں دے دیتیں وہ تو آپ کو دے چکے تھے اب تو وہ آپ کی ملکیت تھا نا‘‘

’’چل ہٹ پرے! جھوٹ موٹ کی باتیں کر کے اپنا اصل نہ چھپایا کر! اچھی طرح جانتی ہوں میں تم ان تحفوں کو کس نظر سے دیکھتی ہو‘‘۔ وہ پیار سے گھرکتیں۔

وقت یونہی دبے پاؤں گزرتا چلا گیا۔ ہمارے دلائے ہوئے زیورات کا انجام بھی ان کے ذاتی زیورات جیسا ہوا کہ کسی ضرورت مند کا وقت سہل ہوا۔

ان کی زندگی کا واحد زیور یعنی یہ چھوٹی چھوٹی جھمکیاں ہمارےبھائی نے کچھ برس پہلے انہیں بضد ہو کے دلوائی تھیں اور کبھی کبھی کہیں شادی بیاہ پہ جاتے ہوئے انہیں زبردستی پہنا دی جاتی تھیں۔ وہ بیٹے کی خوشی کے لئے اپنی پسند کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پہن لیا کرتی تھیں۔

اور اب… اب وہ حسب خواہش بنا زیورات کی کسی صندوقچی کی مالکن بنے حساب کتاب کی فکر سے آزاد زمین کی گود میں پناہ لے چکی تھیں۔

نہ جانے کب تک ہتھیلی پہ رکھی وہ جھمکیاں ہم تکتے رہے اور یادوں کی یلغار میں گم یہ سوال کرنا بھی بھول گئے کہ یہ ہماری ہتھیلی پہ کیوں رکھی گئی ہیں؟

آخر خاموشی توڑتے ہوئے ہم نے بھابھی سے پوچھا، یہ آپ ہمیں کیوں دکھا رہی ہیں؟

’’وہ اصل میں اماں کی چیزیں میرے پاس ہی ہوتی تھیں، زیور میں تو یہی ایک چیز تھی۔ میں نے سوچا کہ آپ کو دکھا دوں۔ اگر آپ لینا چاہیں تو….. آخر یہ آپ کی اماں کی نشانی ہے‘‘۔بے اختیار ہماری آنکھوں سے طوفان بہہ نکلا۔ شاید اماں نے بھابھی کو ہمارے تمام قصے سنا رکھے تھے۔ بھابھی کو گلے لگاتے ہوئے ہم نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا،

’’ہماری اماں کو کسی بھی قسم کے زیور سے کبھی بھی کوئی محبت نہیں رہی۔ انہوں نے کانچ کی چوڑیاں تک نہیں پہنیں۔ تم دیکھ لو ہم تینوں بہنیں بھی کچھ ایسی ہی ہیں۔ اماں سے نوک جھونک میری بے تحاشا محبت کا ایک مظہر تھی۔رہی نشانی والی بات، تو ایمان سے بتاؤ کہ ان کی نشانی میں خود ہوں جسے انہوں نے ٹوٹ کے چاہا یا یہ زیور، جسے انہوں نے اپنی چاہت کی فہرست میں کبھی شامل نہیں کیا۔اسے تم میری اماں کے آخری ان برسوں کی نشانی سمجھ کے قبول کر لو جب وہ تمہارے پاس رہیں اور تم نے انہیں ہماری کمی محسوس نہیں ہونے دی‘‘۔

فائزہ کی آنکھیں بھی بھیگ چکی تھیں۔اماں کو گزرے تین برس ہو گئے! ایسا کوئی لمحہ نہیں جب ہم نے انہیں یاد نہ کیا ہو۔ ہماری زندگی پہ ان کی چھاپ ہی اس قدر گہری ہے۔ اماں کی جدائی نے ہمارے ہاتھ میں پھر سے قلم پکڑا دیا۔ یہ آخری تحفہ تھا جو وہ جاتے ہوئے ہماری جھولی میں ڈال گئیں اور ہم ابھی تک اس لطف احسان کی حیرت میں ہیں۔شکریے کے لفظ تو بے معنی ہو گئے ہیں اور ویسے بھی ماؤں کا شکریہ کون ادا کیا کرتا ہے۔جانے کیوں آج تیرے نام پہ رونا آیا !