منٹو افسانوی ادب کے وہ بے رحم جراح تھے کہ جنہوں نے سماج کے جسم پر پھیلے ہوئے ناسوروں اور متعفن کرداروں کا بڑی سفاکی سے پوسٹ مارٹم کیا۔ انہوں نے افسانے کو افسانوی رنگ میں نہیں، بلکہ حقیقت رنگ کرداروں اور جیتے جاگتے واقعات کے پیرہن میں بیان کرکے افسانے کو ادب میں مقبول ترین صنف کے طور پر منوایا۔ منٹو کی بائیوگرافی پر معروف ہدایت کار سرمد کھوسٹ نے چند برس قبل ’’منٹو‘‘ کے نام سے ایک قابلِ دید شاہ کار فلم تخلیق کی تھی۔
جس میں منٹو کے چند بہترین اور یادگار افسانوں ٹھنڈا گوشت، کھول دو، ٹوبہ ٹیک سنگھ، اوپر نیچے درمیان، لائسنس اور دیگر کی تفاصیل کو اختصار کے ساتھ، لیکن نہایت مؤثر انداز میں فلمایا گیا تھا۔ تاہم ماضی بعید میں سعادت حسن منٹو کے چند افسانوں میں پاکستانی فلم میکرز نے بھی یادگار فلمیں تیارکیں۔ جن میں اقبال شہزاد کی ’’بدنام‘‘ حسن طارق کی ’’اِک گناہ اور سہی‘‘ اور اسلم ایرانی کی ’’لائسنس‘‘ شامل ہیں۔
اقبال شہزاد نے اپنی فلم ’’بدنام ‘‘ کے لیے منٹو کا افسانہ ’’جُھمکے‘‘ منتخب کرکے بے مثل مکالمہ نگار ریاض شاہد کے روح کو گھائل کر دینے والے مکالمات سے آراستہ کرکے ایک ناقابل فراموش فلم کو پاکستانی سینما کی ایک قابل فخرکاوش کا روپ دیا۔ ’’جُھمکے‘‘ میں منٹو نے ایک ایسے تانگہ بان کی دُکھتی اور سلگتی زندگی کو موضوع چُنا کہ جو دن رات محنت کرکے کچھ پیسے روزمرہ اخراجات میں سے پس انداز کرنے کے بعد اپنی بیوی حمیدہ کی دیرینہ خواہش پوری کرتے ہوئے اس کے لیے سونے کے ’’جُھمکے‘‘ بنوا کر خوشی خوشی گھر لوٹا کہ جب حمیدہ سونے کے جُھمکوں کی صوت میں اپنے دیرینہ خواب کو تعبیر ہوتے دیکھے گی، تو خوشی سے دیوانی ہوجائے گی۔ دینوگھر پہنچا تو دیکھا کہ حمیدہ کسی پتھر کے مجسمے کے مثل ساکت بیٹھی تھی، اس کے کانوں میں سونے کی جھمکے چمک رہے تھے اور آنکھوں سے پانی کے جھمکے بہہ رہے تھے۔
دینو نے تڑپ کر پوچھا ’’کہاں سے آئے ہیں یہ جُھمکے، کون لایا ہے یہ جُھمکے، کیا کہہ رہے ہیں یہ جُھمکے ، تمہاری آنکھوں سے کیوں بہہ رہے ہیں جُھمکے۔ حمیدہ کی اندھی خواہش پڑوس کے ہوس پرست ٹھیکے دار کی گندی خواہش کا سامان بن گئی تھی اور آبرو لٹانے کے عیوض اُسے سونے کے جُھمکے مل گئے تھے، مگر دینو کی زندگی میں ایک آبروباختہ بیوی کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ سو حمیدہ کو دینو نے دھتکار کر گھر سے نکال دیا۔ حمیدہ کٹھیا سے نکل کر کوٹھے پر جا پہنچی۔ یہ ہے منٹو کے ’’جُھمکے‘‘ کی کہانی کا دردناک پہلو، جس میں سماج کے رُندھے ہوئے، کچلے ہوئے کرداروں کے ساتھ ٹھیکےدار جسے بھیڑیا صفت معززین کا اصل چہرہ بھی نظرآتاہے۔
’’بدنام‘‘ کی کہانی جتنی جان دار تھی، اتنے ہی تلخ اور زہرخند مکالمات سے ریاض شاہد نے انہیں زندگی کے بھیانک حقائق بیان کیے۔ یہ فلم ستمبر 1964 کو عام نمائش کے لیے پیش کی گئی ۔ پاکستانی سینما کے مایہ ناز ہدایت کار حسن طارق نے منٹو کے ناول ’’ممی‘‘ کو جب فلم کے قالب میں ڈھالا تو’’اِک گناہ اور سہی‘‘ جیسی یادگار فلم نے وجود پایا۔ ممی ایک عیسائی خاتون کی کہانی ہے، جو فحاشی کا اڈہ چلاتی ہے۔
نام نہاد پارسا اور معززین آکر رات کی تاریکی میں گناہ کا کھیل کھیلتے ہیں اور صبح کی روشنی پھیلنے سے پہلے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس کہانی کا سب سے بھیانک اور دردناک پہلو یہ ہے کہ ایک پارسا رئیس، رات کی تاریکی میں ’’ممی‘‘ کے اڈے پر پہنچا، جس لڑکی کے ساتھ شب بستری کرتا ہے، وہی لڑکی ایک روز اس کے بیٹے کی بیوی بن کر یعنی اس رئیس کی بہو بن کر اس کے سامنے آجاتی ہے۔ افسانہ ممی ایسے ہی چبھتے اور کاٹتے واقعات سے عبارت تھا۔
آغا حسن امتشال نے اس کہانی کو بیش تر کرداروں کے مکالمات بالخصوص ’’ممی‘‘ صبیحہ خانم کے مکالمات لکھتے وقت ریاض شاہد کا لب و لہجہ اپنے قلم میں سمو کرفلم ’’اِک گناہ اور سہی ‘‘کی تحریر کو یادگار اور مثالی کردار، منٹو نے ’’ممی‘‘ جس طرح سوچا ہوگا، حسن طارق نے ان کی سوچ سے قریب تر اس کردار کے لیے فرسٹ لیڈی آف پاکستان سینما لیجنڈری صبیحہ خانم کا انتخاب کرکے اور انہیں ممی کے مطلوبہ گیٹ اَپ میں ڈھال دیا اوراس کردار کو پاکستانی ایکٹر کی تاریخ میں ممتاز اور یادگار حیثیت دینے میں گریٹ صبیحہ خانم نے اپنے سارے فنی تجربے اور ریاضتوں کا نچوڑ اس کردار میں سمو کر ’’ممی‘‘ کو جاوداں کردیا۔
’’اِ ک گناہ اور سہی‘‘ جس قدر معیاری فلم تھی ، اسے اس اعتبار سے بڑی کام یابی تو نہ ملی ، مگر 40سے زائد ہفتے ضرور چل گئی۔ تاہم حق تو یہ ہے کہ فلم کو گولڈن جوبلی کا اعزاز ملنا چاہیے تھا۔ یہ فلم 25؍جولائی 1975ء کو منظرعام پر آئی تھی۔
ہدایت کار اسلم ایرانی نے منٹوکے افسانے ’’لائسنس‘‘ پر اسی ٹائٹل کے تحت ایک عمدہ فلم بنائی،جس کی کہانی ایک ایسی لڑکی کی گرد گھومتی ہے، جو گھریلو معاشی حالات کے تحت مجبور ہوکر لڑکے کا روپ دھار کر تانگہ چلا کر حصول معاش کرتی ہے، لیکن جب اس کی حقیقت کھلتی ہے کہ وہ لڑکا نہیں لڑکی ہے ، تو انگریز سرکار اس کے تانگہ چلانے پر پابندی لگا دیتی ہے۔ اس صورت حال سے پریشان ہوکر وہ کوٹھے پر ناچنے کے لیے لائسنس کی درخواست دے دیتی ہے۔ کوٹھے پر ناچنے کا لائسنس اسے بآسانی جاری کردیا جاتا ہے۔
منٹو نے سماج کے اس دوغلے پن کی نشاندہی اپنے افسانے میں کی کہ ایک عورت کو عزت کی روٹی کمانے کی اجازت نہیں، لیکن کوٹھے پر ناچنے، جیسے قبیح فعل کی اجازت ہے۔ اداکارہ نجمہ نے سماج اور قانون کے اس اندھے رویے کا شکار خاتون کاکردار کمال مہارت سے نبھایا تھا۔ لائسنس کے مکالمے محمد کمال پاشا نے تحریر کیے تھے۔ اس فلم کو بہترین کہانی ہی کی بنیاد پر تمام پنجابی فلموں کی نسبت عوام اور مبصرین نے بے حد سراہا ۔ فلم کی نمائش 13؍اگست 1976ء کو ہوئی اور اسے پُورے پاکستان میں فلم کو کام یابی ملی تھی۔
اپنے ریڈرز سے یہ معلومات شیئر کرنا رہ ہوگی کہ 70کی دہائی میں پی ٹی وی نے ’’منٹوراما‘‘ کے عنوان سے سعادت حسن منٹو کے افسانوں کی ڈرامائی تمثیل پر مبنی متعدد کھیل پیش کیے تھے، جن میں نامور اداکار ایس ایم سلیم نے منٹو کے کردار میں لافانی کردار نگاری کی تھی۔ تاہم سرمدکھوسٹ نے اپنی حال ہی میں بنائی گئی فلم میں منٹو کاکردار حسن و خوبی پوری مہارت اور کمال فن سے نبھا کر ناقدین اور مبصرین سے خُوب داد پائی تھی۔