فرحت اقبال
جوں جوں وقت گزر رہا ہے اور زمانہ بدل رہا ہے، توں توں بچّوں کی تربیت کے انداز اور رنگ ڈ ھنگ بھی بدل رہے ہیں۔ اس وجہ سے بچّے اور والدین دونوں ہی اپنی اپنی جگہ کشمکش کا شکار ہیں۔ بچّوں کی تر بیت کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ ماں ، باپ دونوں کا ایک بات پر متفق ہونا ضرور ی ہے کہ وہ بچّوں کے سامنے ایک دوسرے کی عزت کریں، کیوں کہ بچّے سب سے زیادہ دیکھ کر سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا پہلے تو والدین اور ساتھ رہنے والوں کو (مشتر کہ خاندانی نظام ) اپنے ہر عمل میں یہ یا د رکھنا چاہیے کہ جو کچھ بچّے دیکھ رہے ہیں وہی سب کچھ مستقبل میں کریں گے۔
خواہ آپ ان کو کتنا بھی کسی بات سے کیوں نہ روک لیں، جو انہوں نے دیکھا ہے، وہ کرنا اُن کی فطرت میں شامل ہوتا ہے، یوں بھی بچے کو، جس بات سے مسلسل روکا جا رہا ہوتا ہے، وہ اس کے لیے تجسس بن جاتی ہے اور وہ اپنے تجسس کی تسکین یا کھوج کے لیے اس عمل کو دہراتا ہے۔ بچوں کو خوف یا لالچ دے کر کام کرنے کی طرف آمادہ مت کریں۔ ورنہ وہ ساری عمر اس کے زیر اثر زندگی گزار ے گا، یوں وہ مزید دشواریوں کا شکار ہو جائے گا اور آپ کو بھی اس کا حصہ بنا لے گا۔
دوسروں کے سامنے ہدایت دینے ،ڈانٹنے کا دور گزر گیا پیار، محبت سے سمجھائیں، اُس کی ہر بات تحمل سے سنیں
والدین کو چاہیے کہ ان پر کسی قسم کے نظریات مسلط نہ کریں، کیوں کہ آپ کے اور ان کے دور میں فرق ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہر زمانہ کے تقاضے ہوتے ہیں۔ تعلیم نے تو وقت کے ساتھ ساتھ کسی حد تک اپنے معیارات بدل لیے ہیں، مگر تربیت ابھی بھی کسی نہ کسی حد تک ماضی کی روایات کے مطابق ہوتی ہے۔ تعلیم اور تربیت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ بچے کو اسکول اور ٹیوشن بھیج کر ہم اس کے تربیتی تقاضے نہیں بلکہ علمی تقاضے پورے کر رہے ہیں۔ ان تقاضوں کی پہلی سیڑھی والدین، خاندان، دوست احباب، بچوں کے دوست، رویے ہوتے ہیں، جو بچہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ کھیل کود، ملنے ملانے اور کھانے پینے کے دوران سیکھ رہا ہوتا ہے۔
جب بچہ بڑاہوتا ہے تو والدین اسے ڈراتے یا کسی چیز کی لالچ دیتے ہیں ،یوں اس کے ذہن میں کچھ کرنے کے لیے ڈریا لالچ جگہ بنا لیتے ہیں۔ اس طرح بچے نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کا اعتماد اس کی اپنی ذات پہ بحال کرنا تربیت کا سب سے اہم نکتہ ہے۔ اپنے آپ پر اعتبار تب آتا ہے، جب وہ اپنے کام آپ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ جوں جوں وہ بڑے ہونے لگے تو اس سے وہ کام، جو وہ کر سکتا ہے، کروائیں، تاکہ وہ خود مختار ہونا سیکھے اور یوں اس کا اپنی صلاحیتوں پہ اعتماد بڑھنے لگے گا۔
وہ جتنا جلد خود مختار اور پر اعتماد ہو گا، اتنا عملی زندگی میں شامل ہونے کے قابل ہو جائے گا۔ لیکن عموماً والدین بچّوں سے کوئی بھی کام کروانا نہیں چاہتے اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کا سارا کام خود کردیں۔ اس طرح بچہ عمر بھر یہی توقع کرتا رہتا ہے کہ اس کے کام دوسرے کریں۔ کچھ والدین تو انہیں اپنی ذات کے گرد اتنا قید کر دیتے ہیں کہ ان کا اعتماد دوسروں سے اٹھ جاتا ہے۔ بچہ جب بڑا ہو رہا ہوتا ہے تو گھر میں چیزوں کو بکھیرنا اور غلطیاں کرنا ایک عام سی بات ہے، مگر اسے مار کر یا ڈانٹ کر منع کر دیتے ہیں۔ خوف سے وہ سہم تو جاتا ہے، مگر موقع ملتے ہی وہ دوبارہ وہی غلطیاں کرنے لگتا ہے، یاد رکھیں اس نے عملی زندگی میں غلطیوں سے ہی سیکھنا ہے۔
اس کو گھر میں غلطیاں کرنے دیں۔ وہ ان ہی سے سیکھے گا،سوچے گا اسے یہ کام نہیں کرنا۔ اگر آپ اس کو سمجھا دیں کہ دیکھو ایسا کرنے سے خرابی ہوجائے گی تو وہ محتاط ہو جائےگا۔ بچے کو اپنے ساتھ عزیز رشتے داروں، دوست احباب کے گھر لے کر جائیں، اُن سے ملاقات کروائیں، تاکہ نئے لوگوں سے مانوس ہو۔
لوگوں، خصوصا نئے افراد کے سامنے اس کی رہنمائی کم سے کم کریں۔ بہت سے والدین دوسروں کے سامنے اُنہیں ہدایت دیتے رہتے ہیں، تاکہ لوگوں کو بتا سکیں کہ ہمارے بچے ہمارے کتنے کنٹرول میں ہیں، جیسے ہی بچہ ذرا طاقت ور ہوتا ہے تو وہ کسی بھی صورت اس کنٹرول سے بغاوت کر دیتا ہے، کیوں کہ اس کی عزت نفس مجروع ہو رہی ہوتی ہے۔
بچے کو ممکن اور ضروری حد تک آزادی دیں، کیوں کہ سیکھنے کا عمل آزادی کا تقاضا کرتا ہے۔ جسم کھیل کود یا اچھلنا کودنا ایک طرح کی ورزش ہے، جو اس کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لئے بے حد ضروری ہے۔ اس کے ساتھ کھیلوں میں شامل ہوں۔ اس کی خواہش بھی ہوتی ہےکہ والدین اس کے کھیل کود کا حصہ بنیں۔ والدین ،بچے کے آئیڈیل کو کم از کم سمجھنے کی کوشش ضرور کریں۔
جب آپ بچے سے بات کریں گے، اسے وقت دیں گے تو وہ اپنے تصور کی تصویر آپ کے سامنے خود بنا دے گا۔ لیکن اس سب کے لئے آپ کو وقتی طور پر اس کے ذہنی معیار تک آنا ہو گا۔ یعنی وقتی طور پہ بچہ بننا ہو گا۔ بچےمیں قوت برداشت پیدا کریں۔ عموماًجب والدین یا گھر کے دوسرے افراد بات کر رہے ہوتے ہیں اور اچانک بچہ آ جاتا ہے ،تو ہم اپنی بات چھوڑ کر اس کی سننے لگتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اسے کہیں کہ پہلے ہم بات مکمل کر لیں، پھر آپ اپنی بات کیجیے گا۔ یوں اس میں تہذیب گفتگو پروان چڑھے گی اور قوت برداشت بھی پیدا ہوتی ہے۔
جب بچےچلنے اور بولنے کے قابل ہوتے ہیں تو چڑچڑے ہو کر ہاتھ اٹھانا لگتے ہیں جو کہ ایک عام عمل ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ مار رہے ہیں۔ وہ چونکہ ابھی روانی سے بول نہیں سکتے، تیزی سے بھاگ نہیں سکتے، گویا اپنی لسانی و جسمانی حفاظت اور دفاع نہیں کر پا رہے ہوتے تو جب وہ کسی بات سے زچ ہوتے ہیں تو یہ دفاعی رد عمل اختیار کرتے ہیں، تب ان کو توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر اس موقع پہ آپ اسے تھپڑ مار دیں گے تو ممکن ہے آپ کے اس عمل سے وہ تشدد سیکھ لے کہ جب اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات ہو تو وہ بھی مارنا شروع کر دے، کیوںکہ آپ نے اپنی مرضی کے خلاف کا رد عمل تشدد کی شکل میں دکھایا ہے۔ اس لیے ان نازک مراحل سے بہت نزاکت سے گزرنا پڑتا ہے۔ سب بچے ایک جیسی توجہ کے طالب و مستحق ہوتے ہیں۔ بڑے بچے کو مسلسل بڑا اور چھوٹے کو مسلسل چھوٹا کہہ کر ان کی ذات کی نفی مت کیجیے۔ چند سال بڑا ہونے کی وجہ سے ان کا بچپن مت چھینیں۔