• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے نواز پر جرم ثابت کریں، نیب بتائے اثاثے خریدنے اور چھپانے میں مریم نے والد کی معاونت کیسے کی، مفروضے پر نہیں جاسکتے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد( نیوزایجنسیاں) اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کیخلاف درخواست پر نیب کو مریم نواز سے قبل نواز شریف پر جرم ثابت کرنے کی ہدایت کردی، عدالت نے لندن کے اپارٹمنٹس اور نواز شریف کے درمیان تعلق پر نیب سے چار سوالات کے جوابات بھی مانگ لیے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ نیب بتائے اثاثے خریدنے اور چھپانے میں مریم نواز نے اپنے والد کی معاونت کیسے کی، ہم مفروضے پر نہیں جا سکتے، نوازشریف ہمارے سامنے نہیں، بتائیں مریم کیخلاف نیب کا کیس کیا ہے، ایک جملے میں بتانا ہو تو کیا ہوگا، اثاثے بنانے میں مریم نواز نے مدد کی تو پھر ٹرسٹ ڈیڈ اور کیلبری فونٹ چھوڑ کر 1993سے چلیں، آپ خود کو بند گلی میں لے کر جا رہے ہیں، جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے کہ نوازشریف کی اپیل میرٹ پر نہیں عدم حاضری پر خارج کی گئی تھی، مریم نواز کی اپیل میرٹ پر سنیں گے.

 انہوں نے اپنا کیس بنایا ہے کہ عدالتی فیصلے میں کیا قانونی سقم ہیں؟ نیب کو اس کا دفاع کرنا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی اپیلوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔

عدالت کے سامنے مریم نواز کے وکیل امجد پرویز، نیب پراسیکیوٹر عثمان چیمہ اور سردار مظفر عباسی پیش ہوئے۔ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ نیب پراسیکوٹر عثمان چیمہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 23 جون 2021 کو عدالت نے نواز شریف کی اپیل خارج کی، مریم نواز کے خلاف نواز شریف کی اعانت کا چارج عائد کیا گیا تھا۔نیب پراسیکوٹر نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا عدالتی فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ عدالت نے لکھا کہ نواز شریف کو فیئر ٹرائل کا حق دیا گیا تھا.

 عدالت نے یہ بھی لکھا کہ مسلسل عدم حاضری پر عدالت کے پاس اپیل خارج کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، عدالتی حکم کے مطابق وہ سرینڈر کریں یا پکڑے جائیں تو دوبارہ اپیل دائر کر سکتے ہیں۔

 عدالت نے کہا کہ نواز شریف کی اپیل میرٹ پر خارج نہیں ہوئی بلکہ اشتہاری ہونے کی وجہ سے خارج ہوئی، ایسا نہیں ہے کہ جو اپیل اس طرح خارج ہوئی اس کا چارج بھی درست ثابت ہوگیا، اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مرکزی ملزم اب نہ عدالت کے سامنے ہے نہ اس کی اپیل موجود ہے، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کا کردار مرکزی ملزم کی معاونت کا تھا۔

عدالت نے کہا کہ نواز شریف کا کیس ہمارے سامنے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اِن پر فرد جرم ٹھیک ثابت ہوگئی، مریم نواز کے وکیل نے میرٹس پر دلائل دیئے آپ میرٹس پر جواب دیں، اگر کوئی آبزرویشن آئی ہوئی ہے تو اس کے باوجود آپ کو اپنا کیس ثابت کرنا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ٹرائل کے بعد تو سپریم کورٹ کے فیصلے میں دی گئی ڈائریکشنز متعلقہ نہیں، سپریم کورٹ کی ڈائریکشنز پری ٹرائل تھی اب ٹرائل مکمل ہو چکا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جو آبزرویشن دیں اس کا آپ کو ابھی فائدہ نہیں ملنا، نیب کو تمام الزامات آزادانہ طور پر ثابت کرنے تھے، سپریم کورٹ کی وہ آبزرویشن ٹرائل سے پہلے تک تھیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے آرڈر پر یہ کیسز بنائے گئے تھے جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم نے تو ٹرائل پروسیڈنگ کو دیکھنا ہے، سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد ریفرنس دائر اور ٹرائل ہوا، ریفرنس اپنی مضبوطی پر چلنا ہے، اس اپیل کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا کوئی تعلق نہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ تو اس کیس کا بیک گرائونڈ ہے اب آپ آگے چلیں، سپریم کورٹ کے ججمنٹ کے بعد کیا نیب نے خود اس کی تحقیقات کیں؟ کیا آپ نے جے آئی ٹی سے ہٹ کر آزادانہ انویسٹی گیشن کی جس پر نیب نے کہا کہ جی ہم نے الگ سے اس کی انویسٹی گیشن کی تھی۔

 جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے اثرات ہوسکتے ہیں، مریم پر چارج ہے کہ اس نے مس لیڈ کیا، یہ کس کو مس لیڈ کیا یہ آپ کو بتانا ہے۔ نیب نے کہا کہ مریم پر جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنانے اور کیلبری فونٹ کا چارج ہے، نیب نے بھی آزادانہ تفتیش کی، ملزمان کو کال اپ نوٹسز بھجوائے گئے، مریم نواز کو عدالت نے مس لیڈ کرنے پر سزا نہیں دی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آج بھی ملزمان اسی جگہ کھڑے ہیں کہ ہم اس ڈاکیومنٹ کو تسلیم کرتے ہیں، آج نواز شریف ہمارے سامنے نہیں یہ بتائیں مریم نواز کے خلاف نیب کا کیس کیا ہے؟ ایک جملے میں مریم نواز کے خلاف کیس بتانا ہو تو کیا ہوگا؟ نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ مریم نواز نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی خریداری میں نواز شریف کی اعانت کی جس پر عدالت نے کہا کہ 1993 سے 1996 میں جب نواز شریف نے پراپرٹی ایکوائر کی تو آپ کو بتانا ہے مریم نواز نے کیا مدد کی۔

 نیب نے کہا کہ یہ کیس نہیں ہے کہ باپ نے بیٹی کو گفٹ کیا ہے بلکہ مریم نواز نے نواز شریف کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے میں معاونت کی۔ اس پر جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ بتائیں مریم نواز نے کس انداز میں نواز شریف کی معاونت کی؟

 نیب نے کہا کہ مریم نواز نے والد کی جائیداد بنانے اور چھپانے میں معاونت کی۔ جسٹس عامر فارروق نے پوچھا کہ آپ کو پھر بتانا ہے 1993 میں مریم نواز نے جائیداد لینے میں مدد کی یا تو آپ بتائیں مریم نواز کا کردار 1993 میں جائیداد لینے میں تھا یا پھر بتائیں ٹرسٹ ڈیڈ بنا کر اس جائیداد کو بنانے میں 2006 میں مدد کی، آپ خود کو بند گلی میں لے کر جا رہے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے نیب سے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ 2006 میں ٹرسٹ ڈیڈ سے مریم نواز کا کردار شروع ہوتا ہے، اگر اثاثے بنانے میں معاونت کی تو پھر ٹرسٹ ڈیڈ اور کیلبری فونٹ کو چھوڑ کر 1993 سے چلیں۔

اہم خبریں سے مزید