اسلام آباد(فاروق اقدس/تجزیاتی رپورٹ) وزیراعظم شہباز شریف جو یکم نومبر کو اپنے چینی ہم منصب لی کی چیانگ کی دعوت پر اپنے موجودہ منصب کی حیثیت میں پہلی مرتبہ سرکاری دورے پر چین جارہے ہیں پاکستان کی وزارت خارجہ اور اسلام آباد میں چینی سفارتخانے کے ذرئع ان کے اس دورے کر غیرمعمولی اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس دورے میں وزیراعظم کے ہمراہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی چین جارہا ہے۔ چین روانگی سے قبل پاکستانی وزیراعظم کے اولیں دورے سے پیشتر چین کی حکومت نے پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر اضافی پچاس کروڑ یوآن کی امداد دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ اضافی رقم سیلاب زدہ علاقوں میں تعمیرنو کیلئے دی جائے گی لیکن اسے پاکستان کے وزیراعظم کے ’’پرجوش خیرمقدم‘‘ کا اظہار قرار دیا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ چین کے موقعہ پر ایم او یوز پر دستخط کئے جائیں گے۔ واضح رہے کہ ستمبر 2022میں چین نے پاکستان کیلئے 30کروڑ یوآن دینے کا اعلان کیا تھا لیکن معاہدے کے بعد چین کی جانب سے سیلاب زدہ علاقوں میں تعمیر نو کیلئے مجموعی رقم بڑھ کر 80کروڑ یوآن ہوجائے گی۔ چینی صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان اس سے قبل ملاقات شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں سمرقند میں ہوئی تھی جس میں چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالے سے پاکستان میں منصوبوں کی تکمیل کیلئے وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی حکومت کی جانب سے عزم کا آعادہ کیا تھا اب حالیہ دورے میں بھی چینی صدر اور پاکستانی وزیراعظم کی ملاقات ہوگی اور ظاہر ہے کہ اس دورے میں بھی جہاں پاکستان اور چین کے درمیان مختلف معاہدوں اور سمجھوتوں پر ایم او یو سائن ہوں وہاں سی پیک کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کے ساتھ ساتھ اہم پیشرفت کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہاں وزیراعظم کے دورہ چین کے حوالے سے ایک پہلو باعث تشویش ہونے کی حد تک قابل غور ہے 2014میں جب چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کی تاریخیں اور ان کی مصروفیات کے شیڈول کو حتمی شکل دے دی گئی تھی اور انہوں نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران مختلف منصوبوں پر34ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے متعلق معاہدوں پر دستخط کرنے تھے ان کا دورہ منسوخ ہوگیا۔ جس کی وجہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے وفاقی دارالحکومت کے ’’ڈی چوک‘‘ میں احتجاج کا دھرنا تھا۔