اسلام آباد (فاروق اقدس/ تجزیاتی رپورٹ) پاکستان پیپلز پارٹی سے طویل وابستگی رکھنے والے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر سے پارٹی قیادت کی جانب سے استعفیٰ لئے جانے کا فیصلہ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بن گیا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے خود اس بات کا اعلانیہ اظہار کیا ہے کہ وہ ایوان بالا کی نشست سے مستعفی ہونے کا فیصلہ قیادت کی ہدایت یا مطالبے پر کر رہے ہیں۔
مصطفیٰ کھوکھر فی الحال تو اس سوال پر چپ ہیں کہ درپردہ وہ کیا وجوہات تھیں جس بنا پر قیادت نے ان سے استعفیٰ لینے کا فیصلہ کیا لیکن جلد ہی وہ اس بارے میں اپنی پوزیشن واضح ضرور کرینگے۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر جو سینٹ میں انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین بھی تھے اور پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کے ترجمان کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے ۔ وہ کافی عرصے سے پارٹی کی سرگرمیوں سے لاتعلق تھے اور سینٹ کے اجلاس میں بھی ان کی حاضری اول تو برائے نام ہی تھی اور موجودگی بھی خاموشی پر ہی مشتمل ہوتی تھی۔
انہوں نے گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے راہنما شہباز گل اور سینیٹر اعظم سواتی کیساتھ پیش آنیوالے تشدد کے واقعات پر مذمت کے ٹوئٹس کئے تھے جس باعث یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ پارٹی پالیسی کیخلا ان کے یہ ٹوئٹس غیر مناسب تھے اس لئے ان کیخلاف یہ فیصلہ کیا گیا اور یہ تاثر بھی موجود تھا کہ وہ جلد یا بدیر پیپلز پارٹی کو خیرباد کہہ کر تحریک انصاف میں شامل ہوجائینگے لیکن ان کے قریبی ذرائع اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ وہ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔