لاہور( نمائندہ جنگ/ایجنسیاں)چیئرمین تحریک انصاف عمران خان پیر کی شب لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوگئے‘ ان کی پیشی کیلئے دو بار عدالتی کارروائی ملتوی کی گئی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف تحریک انصاف کے احتجاج اور کار سرکار میں مداخلت کیس میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست منظور کرلی۔ عدالت نے عمران خان کی تین مارچ تک حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے پولیس کو گرفتاری سے روک دیا جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے تھانہ سیکرٹریٹ کیس میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔ عمران خان کے وکیل نے اعتراف کیاکہ درخواست ضمانت پر چیئرمین پی ٹی آئی کے دستخط موجود نہیں ہیں ۔عمران خان کی پیشی کے موقع پر کارکنوں کی بڑی تعدادعدالت کے باہر موجودتھی جس کی وجہ سے کافی دھکم پیل ہوئی ‘پی ٹی آئی چیئرمین کئی گھنٹے تک احاطہ عدالت میں گاڑی کے اندربیٹھے رہے اور ان کی جانب سے شبلی فراز نے عدالت سے وہیں پر حاضری لگوانے کی استدعا کی۔ عدالتی حکم پر اظہر صدیق نے مقدے کی ایف آئی آر پڑھ کر سنائی تو عدالت نے استفسار کیا کہ عمران خان کہاں ہیں؟ ۔جواب میں عمران خان کے وکیل نے کہا وہ احاطہ عدالت میں موجود ہیں، ریمپ کے پاس گاڑی میں بیٹھے ہیں ‘معزز جج نے کہا عمران خان کو کورٹ میں آنا ہو گا، عدالت میں درخواست گزار کو پیش ہونے سے کس نے روکا ہے؟، وکیل نے کہا کسی نے روکا نہیں مگر سکیورٹی اہلکار تعاون نہیں کر رہے۔تفصیلات کے مطابق عدالت نے حفاظتی ضمانت کی درخواست اور وکالت نامے پر دستخط میں فرق کی وضاحت اور تھانہ سنگجانی میں درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت کیلئے عمران خان کو پیش ہونے کا آخری موقع دیا تھا جس کے بعد وہ عدالت میں پیش ہوئے،عدالت نے عمران خان کو پیش ہونے کے لیے شام 5 بجے کا وقت دیا تھا تاہم عمران خان تقریباً 5 بجکر 50 منٹ پر ہائی کورٹ کے احاطے میں پہنچے، احاطے میں عمران خان کافی دیر تک موجود رہے، اس دوران تحریک انصاف کے رہنماؤں نے عدالت سے درخواست کی کہ عمران خان کی حاضری قبول کی جائے، انہیں وہیل چیئر پر احاطے سے کمرہ عدالت میں لانا ممکن نہیں تاہم عدالت نے یہ درخواست مسترد کردی اور عمران خان کو ہر صورت عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا،بعد ازاں شام ساڑھے سات بجے عمران خان گاڑی سے نکلےاور خود چل کر عدالت پہنچے،عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ 28 فروری کو ان کی ٹانگ کے ایکسرے ہونےہیں، مجھے دو ہفتے چاہئیں، کوئی جھٹکا لگ گیا تو دوبارہ کھڑے ہونےمیں 3 ماہ لگ جائیں گے، ایک گھنٹے تک گاڑی میں بیٹھا رہا ہوں، عدالتوں کا احترام کرتا ہوں، ہماری پارٹی کا نام بھی انصاف ہے،قبل ازیں عدالت نے حفاظتی ضمانت کی درخواست اور وکالت نامے پر دستخط میں فرق کی وضاحت کے لیے عمران خان کو آج 2 بجے طلب کیا تھا، دوران سماعت جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ 2 بجےکا وقت تھا،کہاں ہیں عمران خان؟عمران خان کے وکلا نے بتایا کہ وہ راستے میں ہیں،کچھ دیر میں پہنچ جائیں گے، سکیورٹی کا مسئلہ ہے،جسٹس طارق سلیم شیخ نےکہا کہ سکیورٹی کا مسئلہ میں نے حل نہیں کرنا، سماعت کچھ دیرکے لیے ملتوی کر رہے ہیں، عدالت میں رش بھی کم کریں، وقفےکے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست ان کے دستخط سےفائل نہیں ہوئی تھی،عدالت نےکہا کہ اگر عمران خان نے یہ درخواست دائر نہیں کی تو واپس کیسے لے سکتے ہیں؟ یہ نہیں ہوتا کہ سماعت تھوڑی تھوڑی دیر بعد ملتوی ہوتی رہے،وکیل عمران خان کا کہنا تھا کہ آپ درخواست خارج کر دیں، اس پر عدالت نے کہا کہ سماعت پھر بھی چلےگی، آپ کا رویہ معذرت خواہانہ ہونا چاہیے تھا، میں آپ کو اظہار وجوہ کا نوٹس دوں گا جواب تیارکرتے رہیں،وکیل خواجہ طارق رحیم نے حفاظتی ضمانت کی درخواست پر عمران خان کے دستخط نہ ہونےکا اعتراف کرتے ہوئےکہا کہ ہم درخواست واپس لینا چاہتے ہیں،وکیل خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا کہ یہ تاثر آرہا ہےکہ عمران خان پیش نہیں ہونا چاہتے،جسٹس طارق سلیم شیخ کا کہنا تھا کہ میں عمران خان کو اظہار وجوہ کا نوٹس کرتا ہوں اور 3 ہفتےکی تاریخ ڈال دیتا ہوں،وکیل خواجہ طارق رحیم نےکہا کہ عمران خان کل ہی آجاتےہیں۔