کراچی (ٹی وی رپورٹ) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ میں نے جنرل باجوہ کی ڈیل مسترد کر دی تھی، اگر میں 2018 کے الیکشن سے پہلے انکی وزیراعظم بننے کی پیشکش قبول کرلیتا تو اس وقت عمران خان وزیراعظم نہیں بنتے، وزارت عظمیٰ کی پیشکش جنرل فیض اورجنرل نوید مختار کی موجودگی میں ہوئی، مجھے پتہ تھا عمران خان کی حکومت میں ملک دیوالیہ ہو چکا ہے، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مانیں، چند دنوں میں اسٹاف لیول معاہدہ ہوجائیگا، جنرل عاصم منیر کی تقرری میرٹ پر ہوئی، توشہ خانے سے تحفہ لینا جرم نہیں لیکن عمران خان نے تحائف دبئی میں بیچے بلکہ جھوٹ بھی بولا اور جعلی رسیدیں دیں، عمران خان عدلیہ سے بچنے کیلئے بیماری، بزرگی، لاچارگی کے بہانے ڈھونڈرہےہیں،میں نے ان کیخلاف کوئی مقدمہ نہیں بنایا، قانون حرکت میں آیا ہے، مریم نواز نے اپنی بہادری اور دلیری سے اس مقام تک پر پہنچی ہیں، جب ہر طرف اندھیرے تھے انہو نے پارٹی اور والد کیلئے آواز اٹھائی، انتخابات سے نہیں گھبراتے،(ن) لیگ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہے اور جب نواز شریف آئینگے تو پارٹی میں پوری قوت آئیگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں میزبان حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ 2018کے الیکشن سے قبل وزارت عظمیٰ کی آفر کے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ایک میٹنگ میں جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور جنرل (ر) فیض موجود تھے جہاں مجھے ایسی پیشکش ہوئی تھی لیکن میں نے آخر میں بغیر کسی کا نام لیے اس ملاقات میں کہا تھا کہ نواز شریف میرے بڑے بھائی ہیں، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں اپنے بھائی کو چھرا گھونپ کر وزیراعظم بن جاؤں تو ایسی وزارت عظمیٰ نہیں چاہیے۔ شہباز شریف نے کہا کہ اگر میں وزارت عظمیٰ کا انکار نہ کرتا تو عمران خان وزیراعظم نہ بنتا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آج تک عمران خان نے گرفتاری سے بچنے کی پوری کوشش کی ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ رانا ثنااللہ کو جعلی کیس میں گرفتار کیا گیا اور ان کے کیس میں ایک واٹس ایپ میسج کے ذریعے جج کو ہٹایا گیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان کو یاد ہو کہ نواز شریف کے سامنے مریم نواز کو گرفتار کیا گیا جبکہ میں نے کہا تھا کہ ان کو گھر سے ضرور گرفتار کریں والد کے سامنے نہیں اور اسی طریقے سے آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کو چاند رات کو گرفتار کیا گیا اور ماڈل ٹاؤن میں میری بیٹیوں کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا جن کا کسی کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ماضی میں اس طرح کسی شخص نے بڑے تکبر کے ساتھ عدالت سے مقابلہ نہیں کیا جس طرح عمران خان کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی رہنماؤں پر روزانہ احتساب عدالت میں مقدمہ چلتا رہا اور سب عدالتوں میں پیش ہوتے رہے،حمزہ شہباز دو برس جیل میں رہا، خواجہ سعد رفیق، حنیف عباسی سب جیل میں رہے۔ اس سوال پر کہ عمران خان کیخلاف دفعہ 144 عائد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی وزیراعظم نے کہا کہ جب عمران خان نے اپنے حواریوں سے ملکر ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی اگر وہ وقت اپوزیشن کو چن چن کر ملاکر معیشت کو ٹھیک کرنے کو دیتے تو اس طرح کے حالات نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ جب مجھے دوسری بار گرفتار کیا گیا تو دہشت گردوں کی گاڑی میں لایا گیا، ٹرائل کورٹ کو مسلسل کہتا رہا کہ کمر میں تکلیف ہے جسکے تین دن بعد گاڑی تبدیل کی گئی۔ عمران خان پر مقدمات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان کیخلاف میں نے کوئی مقدمہ درج نہیں کرایا یہ تو قانون خود حرکت میں آیا ہے لیکن ممنوعہ فنڈنگ کیس فیکٹ فائنڈنگ کی بنیاد پر ہے، اگر کوئی شہری مقدمہ درج کرواتا ہے تو مجھ سے نہیں پوچھتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ میں نے نہیں بلکہ عدالت نے دیئے ہیں۔ عدالتوں کے احکامات پر انتظامیہ عمل نہیں کرے گی تو کیا ہوگا، آپ مجھے بتائیں جب آپ کو گولیاں لگی تھیں ، ایک اور صحافی ہیں ان کو بھی گولیاں لگی تھیں، پیمرا کے جو ابصار عالم کو گولیاں لگیں، مطیع اللہ جان کو جب اغوا کیا گیا، اسی طریقے سے آپ دیکھیں میر شکیل الرحمن کو کس طرح ایک ناجائز کیس میں آٹھ نو مہینے جیل میں رکھا گیا، کوئی شنوائی ہوئی؟، آج تو ایک سیکنڈ میں عمران خان کو ریلیف ملتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی پارٹی انتخابات سے نہیں گھبرائے گی، ہم نے اپنی طرف سے پورا اعلان کر رکھا ہے اور اس پر کام بھی کیا ہے لیکن انتخابات کرانا آئینی اداروں کا کام ہے، ہمارے لوگ کاغذات جمع کرا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دور میں کاؤنسل آف کامن انٹریسٹ کا فیصلہ ہے جس پر مردم شماری پر کام جاری ہے جسکے فنڈ وفاقی حکومت نے دیے ہیں، مردم شماری پر تیزی سے کام جاری ہے جو کہ انتخابی عمل کا حصہ ہے لیکن کچھ سیاسی جماعتوں کو اپنے علاقوں سے متعلق اعتراضات ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ الیکشن کے حوالے سے آئین اور قانون کے ساتھ جڑے ادارے فیصلہ کرینگے ہم نہیں۔ توشہ خانہ پر پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ کو قانونی معاونت حاصل تھی، کابینہ میں یہ معاملہ شروع ہوا تھا جب عمران خان نے خانہ کعبہ کے ماڈل کی گھڑی فروخت کردی، غیرملکی تحفہ لے کر توشہ خانہ میں جمع کیا جاتا ہے جسکے پیسے دے کر خود رکھا جا سکتا ہے اور اس کا سب کو حق تھا اور اب اس قانون میں تبدیلی ہوئی ہے لیکن عمران خان نے تحفہ لے کر بازار میں فروخت کیا اور جعلی رسید جمع کرائی اور یہ عمران خان کا جرم ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت میں آنے سے قبل ہمیں علم تھا کہ حالات خراب ہوچکے ہیں، آئینی طریقے سے حکومت تبدیل ہوئی اور پتا تھا کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے لیکن یہ علم نہیں تھا کہ عمران خان آئی ایم ایف سے طے شدہ شرائط کا بائیکاٹ کر چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج آئی ایم ایف وہ شرائط منوا رہا ہے جس پر یقیناً مجھے تکلیف ہے کہ اس کا اثر عام عوام پر ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ یوکرین میں جنگ کی وجہ سے اشیا کی قلت ہوئی جس سے مہنگائی ہوئی ہے اور پھر سیلاب نے بھی پاکستان میں تباہی ہوئی نہ صرف یہ بلکہ عمران نیازی کا جھوٹ بھی اس عدم استحکام میں شامل ہے کہ امریکا نے سازش کی اور اس سے ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی اور پھر اس نے کہا کہ امریکا نے سازش نہیں کی۔