کراچی (نیوز ڈیسک) ایک دوسرے کے سخت مخالف سمجھے جانے والے ملکوں (ایران اور سعودی عرب) نے جب اعلان کیا کہ وہ سفارتی تعلقات بحال کرنے جا رہے ہیں تو اس سے دنیا کے کئی ممالک حیران رہ گئے، اس کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ برسوں کی مخاصمت، مشتبہ حملوں اور جاسوسی کے واقعات کے بعد ہونے والا بریک تھرو تھا، بلکہ یہ بھی تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ کرانے والا ملک چین تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان صلح کرانے کا یہ خصوصی کردار شاید امریکا ادا نہ کر پاتا، لیکن چین نے مشرق وسطیٰ کے دو ملکوں میں ثالثی کرا کے پہلا شب خون مارا ہے۔ ماضی میں ثالثی کے شعبے پر اکثر و بیشتر امریکا کا ہی قبضہ رہا ہے۔ جیسے جیسے دنیا کی دو بڑی معیشتوں (امریکا اور چین) کے درمیان کشیدگی میں تیزی آ رہی ہے، اور امریکی پالیسی ساز چین کے ساتھ بڑھتی مسابقت پر خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں، ایسے میں چین کی جانب سے دو ملکوں کے درمیان ثالثی کا کامیاب تجربہ مشرق وسطیٰ اور بالخصوص امریکی مفادات پر کیا اثرات مرتب کر سکتا ہے؟ کویت یونیورسٹی میں تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر بدر السیف نے اپنی ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ اس نئی پیشرفت کے بعد دونوں ملکوں کے لوگ سکون کی سانس لیں گے، معاملے میں شامل تینوں فریق کامیابی کا جشن منا سکتے ہیں لیکن اس میں سعودی عرب سب سے بڑا فاتح بن کر سامنے آیا ہے۔ سعودی عرب میں امریکا کے سابق سفیر جوزف ویسٹ فال کے مطابق، سعودی تناظر میں دیکھیں تو ایران کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے سے سعودی عرب میں اصلاحات لانے اور معاشی بہتری اور جدت کی راہ میں رکاوٹ دور ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی قیادت سمجھتی ہے کہ یہ معاہدہ ملک کیلئے ایک اہم لمحہ ہے کیونکہ اب سعودی عرب کئی اہم ایشوز پر ایک حقیقی لیڈر کے طور پر سامنے آ سکتا ہے کیونکہ ایران کے ساتھ برسوں سے جاری کشیدگی سعودی عرب کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر امریکا دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ کرانے کی پوزیشن میں نہیں تھا کیونکہ امریکا کے ایران کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں، چین کے دونوں ملکوں کے ساتھ نہ صرف تعلقات ہیں بلکہ چین نے سعودی عرب میں بھاری سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے، لہٰذا یہ ایک اچھا اقدام رہا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ 2015ء سے سعودی عرب نے یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں کیخلاف بھرپور جنگ چھیڑ رکھی ہے، اور اب دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے کی وجہ سے یمن میں قیام امن کے امکانات پہلے سے زیادہ حقیقت پسندانہ لگتے ہیں۔ خطے میں تیل اور دیگر سامان کی سپلائی کو درپیش خطرات کم ہو جائیں گے، جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کی صورت میں ترقی اور نمو بھی بہتر ہوگی۔ ویرسک میپل کروفٹ میں پرنسپل مڈل ایسٹ اینڈ نارتھ افریقہ اینالسٹ توربیورن سولویدت کا کہنا ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان براہِ راست فوجی تصادم کے امکانات بھی ختم ہو چکے ہیں تاہم یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ تمام مسائل حل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی اور ساتھ ہی ماضی میں خطے میں ایران کی حمایت کے ساتھ شپنگ اور انرجی انڈسٹری پر حملوں کو دیکھیں تو بد احتیاطی کی وجہ سے حالات بگڑنے کا اندیشہ پایا جاتا ہے۔ ماضی میں تہران نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ہونے والے حملوں کی تردید کر چکا ہے۔ توربیورن سولویدت کا کہنا ہے کہ خطے کے ویژن کے حوالے سے ممکن ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مخالفت ہو لیکن رابطہ کاری کے بہتری ذرائع اور چینلز کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی طرح کی کشیدگی کو روکا یا ختم کیا جا سکتا ہے۔ چین کی اتنی بڑی کامیابی پر امریکا کی خاموشی قابل غور تھی۔ نیوز کانفرنس میں امریکا کی نیشنل سیکورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ امریکا خطے میں کشیدگی میں کمی لانے کے کسی بھی اقدام کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے بھی اسی سمت میں کئی اقدامات کیے ہیں۔ لیکن جب ان سے چین کی جانب سے ادا کیے جانے والے کردار پر سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ معاملہ چین کا نہیں ایران اور سعودی عرب کا ہے لہٰذا ہم یہاں چین کے کردار پر بات نہیں کر سکتے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی میں چین کی کوششوں نے مشرق وسطیٰ میں سیاسی لحاظ سے مثبت اشارہ بھیجا ہے کیونکہ چین پہلے ہی کئی ملکوں کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کیے ہوئے ہے۔