لاہور (نمائندہ جنگ)الحمرا کلچرل کمپلیکس میں جاری تین روزہ جشن جون ایلیا اختتام پذیر ہوگیا، ادبی میلے کے تیسرے روز شرکاء نے مشہور شاعر جان ایلیا کی زندگی اور ان کے کلام کے حوالے سے مختلف موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ جشن جون ایلیا کے آخری روزشعراء،دانشورو ں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کہتے حق مانگو نہ چھین لو،قلم سر بلند اور سر قلم بھی کراتا ہے، ہم مشہوری کیلئے حدود سے نکل جاتے ہیں ، سب سے زیادہ گوگل اردو شاعر جون ہی ہیں، جون ایلیا اور ہمارا معاشرہ کے عنوان پر ایک سیشن میں سابق ایم این اے حیدر عباس رضوی نے کہا کہ جون نے اپنی حد تک اپنے آپ کو اگناسٹک رکھا وہ ملحد نہیں تھے ،وہ بلاکے منہ پھٹ اور تشکیک پسند شاعر تھے جو اکثر شعرا نہیں ہوتے تھے ، انسانوں کے خیالات کے بدلتے رہتے ہیں لیکن جون ایلیا اپنے رویوں میں انتہائی سخت اور نفی پرست تھے، ان کا طرز فکر شائد آج کے معاشرےمیں قابل عمل نہ ہو۔ وہ اشتراکیت پسند اور مارکسسٹ رویئے کے حامل تھے اور ترقی پسند مصنفین پر یقین رکھنے والے شاید آخری شاعر تھے ،۔ سیشن زعفران زار کے ماڈریٹر گل نوخیز اختر تھے جبکہ پینل میں حسین شیرازی، وحید الرحمان، ظہیر سید اور ناصر محمود ملک تھے۔گل نوخیز اختر نے کہا جون ایلیا کی شخصیت میں بھی مزاحیت کے بہت پہلو تھے۔ آج ان کی یاد میں اس محفل میں افتخار عارف اور عطاء الحق قاسمی جیسی شخصیات خصوصی طور پر آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب عباس تابش کے شکر گزار ہیں جنہوں نے یہ پروگرام ترتیب دیا۔ سیشن میں مزاح نگاروں ناصر ملک نے خراٹوں پر اپنی تحریر، ظہیر سید نے اپنےمضمون بے ہدایت ڈاٹ کام اور وحید الرحمان نے مزاح پر مبنی اپنے کلام حاضرین کے دل موہ لئے۔ وحید الرحمان نے کہا کہ قلم سے ہی انسان کا سر بلند اور قلم سے ہی اس کا سر قلم ہوتا ہے ،سیشن کے اختتام پر عطاء الحق قاسمی اور افتخار عارف نے زعفران زار کے مہمانوں میں سوینئر تقسیم کئے۔ ایک اور سیشن ’’خلاف معمول ایک مکالمہ ‘‘ کے عنوان سے تھا جس کے موڈیٹر عباس تابش جبکہ کے پینل میں کامران شاہد اور اداکار سہیل احمد تھے ، عباس تابش کا فون بجا تو سہیل احمد نے کہا کہ موبائل کو پنجاب پولیس کے حوالے کر دیں یہ چپ ہو جائے گا جس پر حاضرین نے خوب تالیاں بجائیں ۔ کامران شاہد نے کہا کہ صحافت میں سب سے بڑا چیلنج سچائی اور حقیقت کے ساتھ کھڑا ہونا ہوتا ہے ،میڈیا اتنا آزاد نہیں ،عدلیہ کے متعلق ایک عام تاثر ہے کہ وہ اپنی فیملی کی خواہشات کے زیر اثر ہو جاتے ہیں ،یہاں سچ کہنا بہت بڑا چیلنج ہے۔