• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل، سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کی حکومتی استدعا مسترد کردی

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں)سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ دستیاب ججز پر مشتمل 9 رکنی بنچ بنایا گیا، تین ججز نےکیس سننے سے معذرت کی،کچھ ججز ملک میں نہیں ہیں ،فل کورٹ اس وقت بنانا ناممکن ،عوامی مفاد کےکیس میں کسی جج کا ذاتی مفاد نہیں ہوتا، 9 مئی واقعات سنجیدہ نوعیت کے تھے، اس کیس میں آئینی سوالات کے جوابات ملنا ضروری ہیں۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں ۔سماعت کا آغاز ہوا تو درخواست گزار صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کا کہنا تھا کہ میں نے تحریری جواب جمع کرادیا ہے، میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی کر رہا ہوں۔وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا میں عدالت کی توجہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر دلانا چاہتا ہوں، آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کا ٹرائل نہیں ہوسکتا، جسٹس اجمل میاں کے فیصلے میں سیکشن 8 ٹوکا حوالہ دیا گیا ہے، فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل صرف افواج کے اہلکاروں کا ہوسکتا ہے، فیصلےمیں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہوگی۔وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کیس فیصلے میں ہےکہ ایسا قانون لاگو نہیں ہوسکتا جس سے بنیادی حقوق معطل ہوں، جسٹس فائز عیسیٰ نے قرار دیا کہ فوجی عدالتیں سویلین کے ٹرائل کی آئینی عدالتیں نہیں، میری درخواست میں آرٹیکل 245 کے تحت افواج طلب کرنے کا معاملہ بھی ہے، عدالت نےایف بی علی کیس میں سویلین کے آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل پر لکھا، عدالت نےکہا کہ سویلین دفاعی معاملات میں ملوث نکلے تو آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہوسکتا ہے، 21 ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلے میں فوجی عدالتوں سے سزاؤں پر جوڈیشل ریویو کی اجازت تھی، بنیادی نکتہ یہ ہےکہ جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائےگا،کیا ملزمان کو فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف آئینی درخواست دینےکی اجازت ہوگی؟جسٹس یحیٰی آفریدی کا کہنا تھا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ سویلین کا ٹرائل پہلے سول عدالتوں میں ہو؟ اگر سول عدالتوں میں چارج لگے تو معاملہ فوجی عدالتوں کو بھیجا جاسکتا ہے؟ اس پر عابد زبیری کا کہنا تھا کہ بالکل، ٹرائل پہلے سول عدالتوں میں ہونا چاہیے، معلوم نہیں گرفتار افراد پر فوجی عدالتوں میں چارج فریم ہوچکا ہے یا نہیں۔جسٹس منیب اختر نےکہا کہ سویلین پر اگر چارج فریم ہوجائے تو کیا فوج اس کو تحویل میں لے سکتی ہے؟ کیا فوج سویلین کو تفتیش کے لیے بلاسکتی ہے؟ عابد زبیری کا کہنا تھا کہ جو شہری افواج کی تحویل میں ہیں ان کا فوجی ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔جسٹس یحیٰی آفریدی کا کہنا تھا کہ کیا سویلین کے فوجی ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم ہونا ضروری ہے یا ملزمان کا دفاع یا افواج سے تعلق جوڑنا؟ عابد زبیری کا کہنا تھا کہ پہلے سویلین کا فوج یا دفاع سے تعلق جوڑنا ضروری ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جن فیصلوں کا آپ حوالہ دے رہے ہیں یہ اس وقت کے ہیں جب فوجی ٹرائل کے بارے میں آئینی ترمیم نہیں ہوئی تھی، آپ کہہ رہے ہیں ملزمان کا تعلق جوڑنا ٹرائل کے لیے پہلی ضرورت ہے؟ آپ کے مطابق تعلق جوڑنے اور آئینی ترمیم کے بعد ہی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیر سویلین کا ٹرائل کیا گیا تھا، فوج سے اندرونی تعلق ہو تو کیا پھر آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں؟عابد زبیری کا کہنا تھا کہ ماضی میں ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کی اجازت مخصوص وقت کے لیے دی گئی، عام شہریوں کا آرٹیکل 175 کے مطابق ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکتا۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپ کے مطابق ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے بنیادی حقوق معطل ہوجاتے ہیں، اگر عام شہری ملکی دفاع کے خلاف کام کریں تو پھرکیا ہوگا؟صدر سپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ ملکی سلامتی یا دفاع کے خلاف عام شہری ملوث پائے جائیں تو بھی فوجی ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم لازمی ہے، خصوصی عدالتوں کے قیام کے لیے آئینی ترمیم ضروری ہے۔چیف جسٹس نے عابد زبیری سے سوال کیا کہ کورٹ آف لاء کی آپ کی نظرمیں کیا تعریف ہے؟

اہم خبریں سے مزید