اسلام آباد (بیوز ایجنسیاں) نیب ترامیم کیخلاف کیس میں چیف جسٹس پاکستان نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بارے میں ریمارکس دیئے ہیں کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے ذریعے عدلیہ کی آزادی پر حملہ کیا گیا اور اس آزادی کی بنیادیں ہلا دی گئیں۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے نیب ترامیم کیخلاف کیس پر سماعت کی ۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میرے ایک ساتھی جج نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا حوالہ دیا، آپ کو شاید معلوم نہ ہو، اٹارنی جنرل نے پریکٹس اینڈ پروسیجر اور ریویو آف ججمنٹ قانون میں مطابقت کی بات کی، یکم جون 2023کو اٹارنی جنرل نے عدالت سے مزید وقت مانگا، آٹھ جون کو اٹارنی جنرل نے کہا بجٹ سیشن کے بعد پارلیمنٹ سے قانون میں درستگی کریں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے علم نہیں آج حکومت کا کیا موقف ہے، کیا کسی معطل شدہ قانون کی روشنی میں تمام مقدمات پر سماعت روک دیں، دوسرا حل یہ ہے کہ عدالت اپنا کام جاری رکھے اور پارلیمنٹ طے کرے، احترام کیساتھ کہنا چاہتا ہوں یہ محض تاثر ہے کہ قانون موجود ہے، اگر قانون موجود ہے تو پھر ترمیم کی بات کیوں کی گئی۔وکیل مخدوم علی خان نے استدعا کی کہ عدالت کسی بھی قانون کالعدم قرار دینے سے قبل انتہائی احتیاط کرے، جب تک کسی قانون میں نظرثانی نہ ہو وہ قانون برقرار رہتا ہے۔چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے کہا کہ ہم کسی قانون کو کالعدم قرار نہیں دے رہے۔