• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ متحد ہو، آئین کی حکمرانی قائم کی جائے، لاہور ہائیکورٹ بار سیمینار

لاہور (کورٹ رپورٹر)سینئر وکلاء اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ متحد ہو، ملک میں آئین کی حکمرانی قائم کی جائے،ان خیالات کا اظہار انھوں نے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے انسانی حقوق اور آئینی راستہ اختیار کرنے کے حوالے سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، سینئر قانون دان حامد خان نے اپنے خطاب میں کہا ہائیکورٹ کے ججوں کی تقرریاں میرٹ پر ہونی چاہیے ،جوڈیشل کمیشن کے آئینی رولز میں ترمیم کر کے میرٹ پر تقرریاں ہونی چاہیے، چیف جسٹس کے سامنےججوں کے احتساب کا بھی معاملہ ہے ، سپریم جوڈیشل کونسل کے رولز میں ترمیم کی ضرورت ہے تاکہ مس کنڈکٹ کرنے والےججوں کی پکڑ ہو سکے، چیف جسٹس کو ملک میں آئین کی حکمرانی رائج کر نا ہو گی ان پر فرض ہے کہ سپریم کورٹ کو متحد کریں انکو لیڈرشپ دیں، کوشش کریں کہ سپریم کورٹ ملک کو آئین کی پٹڑی پر چڑھائے ، پی ٹی آئی انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرے گی ، بائیکاٹ سے بڑی کوئی غلطی نہیں ہو سکتی ہے، ہمارا ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے سویلینز کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں ہونا چاہیے، حامد خان نے کہا ملٹری کورٹس غیر قانونی ہیں، آئین کہتا ہے 90 دن میں الیکشن ہوں تو ہونا چاہیے، آج بھی انسانی حقوق کی خلاف وزری ہورہی ہیں ،آج رات کے اندھیروں میں شہریوں کو اٹھا لیا جاتا ہے، کسی جگہ انسانی حقوق پر عمل نہیں کیا جاتا ہے،لوگوں کو اٹھا کر عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا ہے، قانون کہتا ہے گرفتار افراد کو چوبیس گھنٹوں میں عدالتوں میں پیش کیا جانا ضروری ہے مگر یہاں قانون اور آئین کی پامالی ہورہی ہے،آئین کے بنیادی حقوق میں بولنے کی آزادی ہے ، آئین پاکستان ہر شخص کو بولنے کی اجازت دیتا ہے، سینئر قانون دان اعتراز احسن نے کہا کہ قیدی نمبر 804 پر سائفر کا کیس کسی قانون کے تحت بنتا ہی نہیں ہے ،عدالتیں جنھیں رہا کرتی ہیں انھیں پھر گرفتار کرلیا جاتا ہے، پاکستان کی سر زمین کو بے آئین بنا دیا گیا ایسا لگتا ہے کہ فیصلہ کیا گیا ہےکہ عدالتوں کے احکامات نہ مانیں فوجی عدالتیں آئین میں ترمیم کے بغیر نہیں بن سکتیں ، 2015 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ آئین کے تحت ترمیم نہیں کی جاسکتی ہے، صدر لاہور ہائیکورٹ بار چوہدری اشتیاق اے خان نے کہا کہ آج ہمارے ملک میں رول آف لاء کا نفاذ بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے،آئین کی شقوں کی خلاف ورزی کسی صورت برداشت نہیں،آئین کا تحفظ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے، بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے،نائب صدر لاہور ہائیکورٹ بار ربیعہ باجوہ نے کہا کہ بھارت آج اس لیے ترقی کررہا ہےکیونکہ انہوں نے آمریت کو روکا، وکلاء کی جہدوجہد سے 2007 میں کامیاب ہوئے ہم انکے خلاف وکلاء اور عوام کو نکلنا ہوگا، یہ جب چاہتے ہیں ہمارے حقوق سلب کرلیتے ہیں ، اس سے پہلے پاکستان میں کبھی ایسی مایوسی نہیں دیکھی،یہ ہمارا ملک ہے آپ لوگ تو ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے اس ملک کے اندر ہمارا خون ہے ہم نے اس کو بچانا ہے آج مایوسی کی واحد وجہ یہ ہے ہم باہر نہیں نکلتے ہم اپنی قوت سے باہر نکلیں گے تو یہ بت ٹوٹ جائیں گئے۔ نائب امیرجماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا کہ بات اب قیدی نمبر 804 تک چلی گئی ہےسول او ر ملٹری اسٹبلشمنٹ کے نزدیک آئین، قانون اور ضابطے کی کوئی حیثیت نہیں، ان دونوں کا ایک مائینڈ سیٹ بنا ہوا ہے،اقتدار کیلئے سیاسی لوگ ان کی بات مانتے ہیں،سیاستدان اقتدار میں آکر سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی طاقت پر اقتدار میں آئے ہیں،جب اسٹیبلشمنٹ کی بات نہ مانی جائے تو اختلافات پیدا ہوتے ہیں،معاشرے میں تقسیم بہت بڑھ چکی ہے،اب عدلیہ کی تقسیم کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں،وکلا اور سول سوسائٹی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے،پانچ پانچ سال کی حکومتوں کے باوجود ملک میں نہ سیاسی اور نہ معاشی استحکام آیانو مئی کے واقعات کی شفاف تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بننا چاہئے،کراچی کے بلدیاتی الیکشن کی صورتحال سب کے سامنے ہے،اوریا مقبول جان نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت خوف اور بھوک کا خوف طاری ہے،،کرنل کمال متین الدین نے کہا تھا کہ 1971 میں ملک ٹوٹنے کی ذمہ دار انٹیلی جنس رپورٹس تھیں، ایاز امیر نے کہا کہ سوال یہ ہے آئین کی پامالی سے فرق کیا پڑتا ہے،پوچھیں ان لوگوں سے جو بیرون ملک کی ایمبیسیوں کے باہر قطار میں کھڑے ہیں، کیا انہیں کوئی امید ہے،ایسی مایوسی ساری عمر نہیں دیکھی۔

ملک بھر سے سے مزید