اسلام آباد (ٹی وی رپورٹ/نیوز ایجنسیز/نمائندہ جنگ) سائفر کیس میں پی ٹی آئی کو مزید ریلیف مل گیا، عمران کیخلاف ٹرائل 11 جنوری تک روک دیا گیا، اسلام آباد ہائیکورٹ سائفر کیس کی آج ہونے والی سماعت سے متعلق جاری تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ چار ہفتے میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم کالعدم قرار دے چکی ہے۔ نمائندہ جنگ اور نیوز ایجنسیز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اوپن ٹرائل کا مطلب اوپن ہوتا ہے، جیل ٹرائل کرنا ہے تو ان کیمرہ سماعت کیوں ہورہی ہے، جس طرح کارروائی آگے بڑھ رہی ہے اس پر تشویش ہے، ایک دو لوگوں یا خاندان کے افراد کی موجودگی سے بھی یہ کلوزڈ ڈور ٹرائل ہی رہے گا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی جانب سے جاری کردہ 9 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں بتایا گیا ہے کہ درخواست گزار بانی پاکستان تحریک انصاف نے ٹرائل کورٹ کا 14 دسمبر کا آرڈر چیلنج کیا تھا جس میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے استغاثہ کی درخواست پر ٹرائل کو ان کیمرہ قرار دیا گیا تھا، حکم نامے کے ذریعے ٹرائل کورٹ نے میڈیا کو کیس کی رپورٹنگ اور تشہیر سے بھی روک دیا تھا۔ ٹرائل کورٹ نے اس مد میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور پیمرا کو بھی ہدایات جاری کیں تھی، ٹرائل کورٹ نے ملزمان کے اہل خانہ کو بھی کیس کی کارروائی کو میڈیا پر بیان کرنے سے روک دیا تھا، درخواست گزار کے وکیل کے مطابق ٹرائل کورٹ کا یہ اقدام ملزمان کے شفاف ٹرائل کے حق کے منافی ہے، سائفر چالان کا حصہ ہی نہیں اس لئے اوپن ٹرائل سے ریاست کی سکیورٹی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ دوران سماعت عدالت نے ان کیمرا ٹرائل پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ اوپن ٹرائل کا مطلب اوپن ہوتا ہے اس میں میڈیا اور پبلک کو آنے کی اجازت ہوتی ہے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ سیکشن 14 کے تحت مکمل ٹرائل کو ان کیمرہ قرار نہیں دیا جاسکتا، اگر کسی گواہ کا بیان خفیہ رکھنا مقصود ہو تو اس کی حد تک ان کیمرہ قرار دیا جاسکتا ہے، ٹرائل کورٹ کی جانب سے غیرضروری جلد بازی کے ساتھ ٹرائل کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 14 دسمبر سے 21 دسمبر کے درمیان ٹرائل کی کارروائی کو ان کیمرہ رکھا گیا، 21 دسمبر کے بعد ٹرائل کی کارروائی کو اوپن ٹرائل قرار دے دیا گیا، استغاثہ کے 4 گواہان کے بیانات کو پبلک کے سامنے ریکارڈ نہیں کیا جاسکتا تھا، استغاثہ کے یہ 4 گواہ وزارت خارجہ کے ملازم تھے اور سائفر آپریشنز سے منسلک تھے، اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ ان 4 گواہان کے علاوہ دیگر 9 گواہان کے بیانات پر اوپن کورٹ میں جرح ہوسکتی تھی۔حکم نامے میں بتایا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کی گزارشات سے یہ بات صاف ہے کہ ٹرائل کورٹ نے غیرضروری طور پر گواہان کے بیانات ان کیمرہ ریکارڈ کئے، اس بات کا فیصلہ بھی کرنا ہوگا کہ آیا ٹرائل کورٹ نے کارروائی دوبارہ اوپن قرار دینے کے لئے اپنے 14 دسمبر کے حکم نامے پر نظر ثانی کی؟ اس سوال کے جواب میں پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے ٹرائل کورٹ کے 23 دسمبر کے حکم نامے پر توجہ مبذول کرائی، 23 دسمبر کے حکم نامے میں یہ تاثر دیا گیا کہ ٹرائل کورٹ استغاثہ کی درخواست پر کارروائی ان کیمرہ قرار دے سکتی ہے، صرف استغاثہ کی جانب سے درخواست ٹرائل کی کارروائی کو ان کیمرہ قرار دینے کے لئے کافی نہیں ہے۔ اس میں مزید بتایا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ کا 23 دسمبر کا حکم نامہ کسی طرح بھی14 دسمبر کے حکم نامے پر نظرثانی شمار نہیں کیا جاسکتا، درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ ان کیمرہ بیان ریکارڈ کرانے والے 4 گواہان کے بیانات کی تصدیق شدہ کاپی ان کے پاس موجود ہے، درخواست گزار کے وکیل کے اس دعوے نے عدالت اور اٹارنی جنرل کو بھی حیران کردیا، درخواست گزار وکیل نے ان کیمرہ بیان ریکارڈ کرانے والے 4 گواہان کے بیانات کی کاپیاں عدالت میں پیش کردیں جو اب ریکارڈ کا حصہ ہیں، حکم نامے کے مطابق عدالت میں پیش کی گئی 25 گواہان کے بیانات کی تصدیق شدہ کاپیوں میں ان کے استعمال پر قدغن کا کوئی ذکر نہیں، اب ان کیمرہ بیان ریکارڈ کرانے والے 4 گواہان کے بیانات کی کاپیاں بھی پبلک ہوچکی ہیں، عدالت ان کیمرہ بیان ریکارڈ کرانے والے 4 گواہان کے بیانات کو دیکھ کر فیصلہ کرے گی کہ کیا یہ قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں یا نہیں، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے سائفر کیس کی کارروائی روزانہ کی بنیاد پر چلائی جارہی ہے، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کا ایک ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم اب نافذ العمل نہیں رہا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد بھی ٹرائل کورٹ روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل آگے بڑھا رہی ہے، ٹرائل کی کارروائی کو امر واقعہ بننے سے روکنے کیلئے آئندہ سماعت تک حکم امتناع جاری کیا جاتا ہے، کیس کی سماعت 11 جنوری 2024 تک ملتوی کی جاتی ہے۔ نمائندہ جنگ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس کا ٹرائل 11 جنوری تک روک دیا۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریاست کا موقف ہے کہ تین ایسے گواہ تھے جن کا بیان نشر نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ پراسیکیوشن کو کہنا چاہئے تھا کہ جج صاحب تین گواہان کیلئے ان کیمرہ ٹرائل کا حکم دیں تا کہ ٹرائل پر سوالات نہ اٹھیں۔