اسلام آباد(رپورٹ:،رانامسعود حسین) چیف جسٹس نے کہا ہے کہ بادی النظر میں خاص مقصد کے لیے یکے بعد دیگرے پریس کانفرنسیں کی گئیں، چیخ و پکار اور ڈرامے کی کیا ضررورت ہے، ہمارے منہ پر آکر تنقید کرلیں، میں نے کچھ غلط کیا تو اس کی سزا دیگر ججوں کو نہیں دی جاسکتی۔ پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے ۔ ججز کنڈکٹ پر پارلیمنٹ میں بھی بات نہیں ہوسکتی۔ معلوم ہے عدلیہ کونسے نمبر پر ہے۔ یہ آبزرویشن چیف جسٹس نے واڈا اور مصطفیٰ کمال کی حالیہ پریس کانفرنسوں کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے دی۔ عدالت نے واڈ ااور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کے نوٹس بھی جاری کیے جن میں دو ہفتوں کے اندر ان پریس کانفرنسوں کے حوالے سے وضاحت مانگ کی ہے۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ اداروں کو بدنام کرناقوم کی خدمت نہیں، پریس کلب والی بات پارلیمنٹ میں بھی کرسکتے تھے،پریس کانفرنسیں اخبارات میں اور ٹی وی پر چلائی گئیں، غلطیاں ہوئیں، بھٹو کو زندہ نہیں کرسکتے، پارلیمنٹ بالادست ہے، سپریم کورٹ نے صوبہ سندھ سے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے ،سینیٹر فیصل واوڈا اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے کراچی سے رکن قومی اسمبلی سید مصطفی کمال کو مبینہ طور پر عدلیہ سے متعلق نامناسب زبان استعمال کرنے کی پاداش میں توہین عدالت میں اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں کے اندر اندر ان کی جانب سے عدلیہ کے متعلق کی گئی پریس کانفرنسوں کے حوالے سے وضاحت مانگ لی ہے جبکہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے پریس کانفرنسز کی ویڈیو ریکارڈنگ اور متن بھی طلب کرتے ہوئے اور اٹارنی جنرل کو عدالت کی معاونت کیلئے نوٹس جاری کر دیا ہے، عدالت نے قرار دیا ہے کہ بادی النظر میں ان پریس کانفرنسوں کے ذریعے عدلیہ کی توہین کی گئی ہے ،پیمرا مصطفی کمال اور سینیٹر فیصل واوڈا کی پریس کانفرنسوں میں صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے سوالات اور انکے جواب کی مکمل تفصیلات بھی پیش کرے، کیس کی مزید سماعت 5 جون کو ہوگی ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعہ کے روز فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر توہین عدالت میں لئے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان پیش ہوئے، چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پریس کانفرنس سنی ہے؟ کیا وہ توہین آمیز ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ جو میں نے سنی ہے اس میں آواز نہیں آرہی تھی ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میرے خلاف اس سے زیادہ گفتگو ہوتی رہی ہے لیکن میں نے اسے نظرانداز کیا ہے، نظرانداز کرنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہی انہوں نے سوچا ہے کہ چلو ہم بھی تقریر کرلیں، اگر کسی نے کچھ برا کیا ہے تواس کا نام لیکر کہیں ؟ ہم کسی کو ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے،انہوں نے کہاکہ ادارے عوام کے ہوتے ہیں، انہیں بدنام کرنا کوئی ملک وقوم کی خدمت نہیں ہے، آزادی اظہار اور توہین عدالت سے متعلق آئین و قانون کو پڑھیں؟ انہوں نے کہاکہ انہوں نے پریس کلب میں جاکر پریس کانفرنس کی ہے حالانکہ یہ پارلیمنٹ میں بھی بات کرسکتے تھے،بادی النظر میں ایسا لگتا ہے جیسے کسی خاص مقصد کے تحت یہ سب کچھ کیا گیا ہے، ایک کے بعد ایک پریس کانفرنس کی گئی ہے، مصطفی کمال بھی بولے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کیس کا حوالہ دیا گیاہے، انہوں نے کہاکہ ذوالفقار بھٹو کیس میں تو ہم نے اپنی اصلاح کی ہے، آپ بھی تو کچھ کریں، اگر اصلاح کا کوئی اور طریقہ کار ہے تو رجسٹرار یا مجھے لکھ کر دیں، ہم بہتری لائیں گے، یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ آپ ادارے کیخلاف چڑھ دوڑیں؟اس سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد ختم ہوجائے گا،انہوں نے کہاکہ انفرادی طور پر تو کسی شخص پرتو تنقید کی جا سکتی ہے ،لیکن بحیثیت ادارہ ایسے رویے کی اجازت نہیں دی جائے گی،انہوںنے کہاکہ مارشل لاء کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا، اگر میں نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کی سزا دیگر ججوں کو نہیں دی جا سکتی ہے، بندوق اٹھانے والا سب سے کمزور ہوتا ہے، کیونکہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا ہے، دوسرے درجے کا کمزور گالی دینے والا ہوتا ہے، مہذب معاشروں میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا ہے ،اسی لیے ہی وہاں پر توہین عدالت کے نوٹسز بھی جاری نہیں ہوتے ہیں، چیخ و پکار اور ڈرامے کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ تعمیری تنقید ضرور کریں، فیصل واوڈا کے بعد مصطفی کمال بھی سامنے آگئے ہیں، دونوں ہی پارلیمنٹ کے رکن ہیں، انہیں ایوان میں بولنا چاہیئے تھا، ایسی گفتگو کرنے کیلئے پریس کلب کا ہی انتخاب کیوں کیا گیاہے؟انہوں نے کہاکہ ایک ڈویژن کے کمشنر نے مجھ پر انتخابات میں دھاندلی کروانے کا الزام لگایا تو سارے میڈیا نے اسے چلا دیا، بھائی بتاتو دیں کہ میں نے دھاندلی کیسے کروائی ہے ، گالم گلوچ سب رپورٹ کرتے ہیں اچھی باتیں کوئی رپورٹ نہیں کرتا ہے، پارلیمنٹ میں بھی ججوں کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جا سکتی ہے، یہ عوام کا ادارہ ہے، آپ اس کا وقار کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اسی عدالت نے مارشل لاؤں کی بھی آئینی توثیق کی ہے۔