• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی ریلیف، عدلیہ کی تخلیق، ریاست کا کوئی آئینی ادارہ کسی ایسے عدالتی حکم پر عمل کا پابند نہیں جو آئین کے مطابق نہ ہو، اقلیتی فیصلہ

اسلام آباد (ایجنسیاں، جنگ نیوز) پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں ملنے کے فیصلے سے متعلق سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان نے تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کر دیا ہے۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں تو یہ عدالت کا اپنی جانب سے خود سے تخلیق کردہ ریلیف ہوگا، ریاست کا کوئی آئینی ادارہ کسی ایسے عدالتی حکم پر عمل کا پابند نہیں جو آئین کے مطابق نہ ہو، ریلیف کیلئے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا، آرٹیکل 51، 63 اور 106کو معطل کرنا ہوگا، اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کیس میں فریق ہی نہیں تھی، سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا، اکثریتی فیصلے میںقانون کی بنیادی دفعات اور آئین کو نظر انداز کیا گیا، اختلافی نوٹ میں کہا کہ مختصر فیصلے کے بعد 15 دنوں کا دورانیہ گزرنے کے باوجود اکثریتی فیصلہ جاری نہ ہو سکا۔ دونوں ججز کا اختلافی فیصلہ 29 صفحات پر مشتمل ہے۔ اقلیتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ثابت شدہ حقیقت ہے سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، حتیٰ کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔ دونوں ججز نے اقلیتی فیصلے میں اکثریتی فیصلہ تاحال جاری نہ ہونے پرسوالات اٹھا دیے اور اختلافی نوٹ میں کہا کہ مختصر فیصلے کے بعد 15 دنوں کا دورانیہ ختم ہونے کے باوجود اکثریتی فیصلہ جاری نہ ہو سکا، تفصیلی فیصلے میں تاخیر کے باعث ہم مختصر حکم نامے پر ہی اپنی فائنڈنگ دے رہے ہیں۔ اقلیتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی، پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کیلئے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہوگا، پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کیلئے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہوگا۔ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں اور جسٹس نعیم افغان نے جسٹس امین الدین کے فیصلے سے اتفاق کیا تھا۔ اقلیتی فیصلے میں سنی اتحاد کونسل کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے چار خطوط بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اقلیتی فیصلے کے مطابق آزاد امیدواروں کو الیکشن کمیشن، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں طریقہ کار مکمل ہونے کے بعد تسلیم کیا، 39 یا 41 اراکین اسمبلی جس کا مختصر اکثریتی فیصلے میں حوالہ دیا گیا ہے یہ معاملہ کبھی متنازع ہی نہیں تھا، کسی عدالتی کارروائی میں یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا کہ اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی، تحریکِ انصاف الیکشن کمیشن اور نہ ہی ہائیکورٹ میں فریق تھی۔ اقلیتی فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ میں فیصلہ جاری ہونے تک پی ٹی آئی فریق نہیں تھی، 13 رکنی فل کورٹ کی آٹھ سماعتوں میں سب سے زیادہ وقت کا استعمال ججز کے سوالات پر ہوا، دوران سماعت کچھ ججز نے یہ سوال بھی پوچھا کیا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جا سکتی ہیں؟ کوئی بھی وکیل مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے پر متفق نہ ہوا۔

اہم خبریں سے مزید