اسلام آباد، شاہ کوٹ (رانا مسعود حسین، نامہ نگار) سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے4 اراکین اسمبلی کی دوبارہ گنتی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے انہیں بحال کر دیا، عدالتی فیصلے سے بحال ہونے والوں میں این اے79، 81 اور154 سےاظہر قیوم ناہرا، عبد الرحمٰن کانجو، ذوالفقار احمد، پی پی 133سے رانا محمد ارشد شامل ہیں، عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جب ہائیکورٹ میں کیس گیا اس وقت یہ ترمیم موجود تھی مگر ہائیکورٹ نے سیکشن 95 کی ذیلی شق 5 کو مدنظر ہی نہیں رکھا،چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا الیکشن کمیشن احترام کا حقدار، کچھ ججزتضحیک آمیز ریمارکس دیتے ہیں، جسٹس عقیل عباسی نے اختلافی فیصلہ دیا انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے مین آئینی اور قانون سقم نہیں کہ مداخلت کی جائے، عدالتی فیصلے سےلیگی حلقوں میں خوشی لہر دوڑ گئی،مٹھائیاں تقسیم کیں اور کارکنوں اور ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰکی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے پیر کے روز 12جولائی 2024کو محفوظ کیاگیا 47صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کرتے ہوئے دو ایک ججوں کی اکثریت سے چاروں امیدواروں کی اپیلیں منظور کرلی ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر افغان نے چاروں اپیل گزاروں کے حق میں فیصلہ جاری کیا ہے جبکہ جسٹس عقیل احمد عباسی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے قرار دیاہے کہ ہائی کورٹ نے دائرہ اختیار کا درست استعمال کرکے الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف دائر آئینی درخواستیں منظور کی ہیں۔اختلافی فیصلے کے مطابق ہائیکورٹ نے دوبارہ گنتی پر نہیںبلکہ الیکشن کمیشن کے اپنے اختیار ات سے تجاوز سے متعلق فیصلہ دیا ہے ۔ یاد رہے کہ عام انتخابات 2024میں الیکشن کمیشن نے این اے 154 لودھراں (ون)سے آزاد امیدوار رانا محمدفراز نون کو مسلم لیگ (ن) کے امیدوار عبدالرحمان کانجو، این اے 81گوجرانوالہ (فائیو)سے آزاد امیدوار چوہدری بلال اعجاز این کو مسلم لیگ (ن) کے امیدوارا ظہر قیوم نارا، این اے 79 گوجرانوالہ (تھری) سے آزاد امیدوار احسان اللہ ورک کو مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ذوالفقار علی بھنڈر جبکہ پی پی 133ننکانہ صاحب(ٹو) سے آزاد امیدوار میاں محمد عاطف کو مسلم لیگ (ن) کے امیدوار رانامحمد ارشد کے مقابلہ میں کامیاب قرار دیا تھا۔ تاہم دوسرے نمبر پر آنے والے چاروں مذکورہ بالاامیدواروں نے دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے دوبارہ گنتی کیلئے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا،دوبارہ گنتی کے بعد الیکشن کمیشن نے ان چاروں امیدواروں کو کامیاب قراردے دیا تھا، الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو چاروں آزاد امیدواروںنے ایک آئینی درخواست کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جہاں عدالت نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیکر انکی کامیابی کو بحال کردیا تھا،اس فیصلے کیخلاف مسلم لیگ (ن) کے چاروں مذکورہ بالا امیدواروں نے سپریم کورٹ میں یہ اپیلیں دائر کی تھیں، دونوں فاضل ججوں نے اپنے اکثریتی فیصلے میں مذکورہ بالا حلقوںمیں ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کرنے کی قانونی وجوہات جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ زیر غور معاملہ میں سپریم کورٹ کی کئی نظائر موجود ہیں لیکن ہائی کورٹ کے ججوں نے قانون دیکھے بغیر اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر غور کیے بغیر ہی یہ آئینی درخواستیں منظور کرلی ہیں۔ اکثریتی فیصلے میں قراردیا گیا ہے کہ جن نظائر کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سپریم کورٹ یہ قرار دے چکی ہے کہ انتخابی معاملات میں ہائی کورٹ آئین کے آرٹیکل 199کے تحت رٹ پٹیشن کے دائرہ اختیار کو صرف اسی وقت ہی استعمال کرسکتی ہے جب متاثرہ فریق کی داد رسی کسی اور فورم پر ممکن نہ ہو یا جو حکمنامہ ہائی کورٹ کے سامنے چیلنج کیا گیا ہو؟ وہ غیر قانونی،بدنیتی پر مبنی اوراختیارات سے تجاوز کرکے جاری کیا گیا ہو اورجو قانون کی نظر میںفیصلہ ہی نہ ہو،سپریم کورٹ کی مذکورہ نظائر میں یہ طے ہوچکا ہے کہ اگر مد مقابل دوبارہ گنتی کرنے کے الیکشن کمیشن کے انتظامی اقدام کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریگاتو ہائی کورٹ اس معاملے کو نہیں دیکھ سکتی ہے کیونکہ اس معاملے میں دادرسی کے دیگر مناسب فورم موجودہیں، عدالت نے قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 199کے دائرہ اختیار کے استعمال کے لیے دو لوازمات ضروری ہیں، (اول ) متاثرہ شخص کا ہونا اور (دوئم) دادرسی کا مناسب فورم نہ ہونا، اکثریتی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو دوبارہ گنتی کرانے کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے اور دوبارہ گنتی کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہوتا ہے۔