اسلام آباد( رانا غلام قادر )چیئر مین اسلامی نظر یاتی کونسل ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے واضح کیا ہے کہ ہجوم کاانصاف ( Mob justice) نا قابل قبول ہے یہ غیر شرعی اور غیر قانونی ہے، توہین رسالت ہو یا توہین اہلبیت ،تو ہین صحابہ ہو یا توہین قرآن ، ملزمان کو سزا دینے کا اختیار ریاست کے پاس ہے جس کا قانونی طریقہ کا ر موجود ہے کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کا کو ئی اختیار نہیں ہے، چیف جسٹس قتل سے متعلق فتوے کو حرام کہا تو دھمکیاں ملیں ا نتہا پسندی اور دہشتگردی کیخلاف شعور کو اجاگر کیا جا ئے،میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ توہین مذہب کے قوانین مو جود ہیں سزاؤں کا تعین بھی کردیاگیا ہےاسکے باوجود بدقسمتی سے سیا لکوٹ ،سوات یا سر گودھا جیسے واقعات رونما ہوئے ہیں،توہین مذہب قوانین میں موت سمیت چار مختلف سزائیں ہیں گستاخی رسالت کے مرتکب شخص کی قانون میں سزا، سزائے موت،قران کی بے حرمتی کی سزا عمر قید،امتناع قادیانیت آرڈیننس کی خلاف ورزی کی سزا تین سال قید ہے،انبیاء ، صحابہ و اہل بیت کی شان میں گستاخی کی سزا سات برس قید ہے، توہین رسالت کے معاملے پر کسی کو قتل کا فتویٰ دینے کا اختیار نہیں میرے والد علامہ سر فراز نعیمی کو مساجد او ر مزارات حملوں اور قتل عام کیخلاف فتویٰ دینے پر شہید کیا گیا میں نے بھی چیف جسٹس کے قتل سے متعلق فتوے کو غیر شرعی اور غیر آئینی قرار دیا اور کہا کہ کسی کو چیف جسٹس یا کسی اور کے قتل کا فتوی ٰ دینے کا اختیار نہیں تو مجھے بھی شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا،دھمکیاں دی گئیں چار پانچ سو ایسے میسجز آئے جو نا قابل بیان ہیں قتل کا فتوی دینا یا قانون ہاتھ میں لے کر خود انصاف کی کوشش غیر شرعی اور غیر آئینی ہےعدم برداشت کے باعث لوگ مذہبی معاملات میں سننے کو تیار نہیں توہین کا علم ہونے پر بھی کسی شخص کو دوسرے کو سزا دینے کا اختیار نہیں ،شریعت کسی شخص کو دوسرے کی جان لینے کا اختیار نہیں دیتی ،ملک میں پانچ فیصد قوانین ایسے ہیں جو قران و سنت کے مطابق نہیں اسلام میں سختی سے ممانعت کے باوجود آج بھی ملک میں سودی نظام رائج ہےسودی نظام ساری معیشت پر حاوی ہےنئے قوانین میں ٹرانس جینڈر سے متعلق قانون کو شریعت کوٹ غیر ائینی قرار دے چکی ہےبلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حکومتوں نے معاہدے کر کے اس پر عملدرآمد نہیں کیا۔