• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیوی کے لیئے کوئی چیز لاتا تو کہتا جاؤ امی کو بھی دو۔ امی کے لیے کچھ لاتا تو ا می سے کہتا بہوکو بھی دینا۔ بیوی کو لگتا کہ امی نے اپنی خوشی سے دی ہے، امی کو لگتا کہ بہو نے اپنی خوشی سے دی ہے محسوس کرتا کہ بھائیوں کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو خود اپنے پیسوں سے لاتا۔ 

بیوی کو کہتا جاؤ بھائیوں کو دے آؤ اور یہ محسوس نہ ہونے دینا کہ تمہارا شوہر لایا ہے، بلکہ اُن کو ایسا لگے تم لائی ہو۔ ماشاء اللہ کئی سال ہوگئے اب تو میری ماں اور میری بیوی کی آپس میں ایسی بنتی ہےجیسے ماں بیٹی ہوں۔ ایک دوسرے کے بغیر ایک دن بھی رہنا مشکل ہو جاتا ہے بیوی جب ایک دن کے لیے میکے جاتی ہے تو امی سے گلے مل کر جاتی ہے۔

بھائی اگر کچھ لائیں تو مجھے دینے سے پہلے بھابھی کو دیتے ہیں کہ وہ بھی تو ہمارے لیئے چیزیں لاتی ہیں۔ میرے بھائی اور میری بہن کی میری بیوی سے ایسی دوستی جُڑ گئی ہے کہ مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں گھر میں کوئی مہمان ہوں باقی سب آپس میں بہن بھائی ہیں۔ بیوی کپڑے دھوتی تو امی کو کہتا امی ذرا ہاتھ لگوا دینا امی اگر سلائی کر رہی ہو تو بیوی کو کہتا ہوں، امی کے ساتھ ذرا ہاتھ لگوا دینا، تا کہ کام جلدی ہو جائے۔

بہن کھانا پکا رہی ہو تو، بیوی کو کہتا ہوں ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتی رہو کھانا بھی پک جائے گا اور میری بہن بور بھی نہ ہوگی اگر بیوی کھانا پکا رہی ہو تو بہن کو کہتا ہوں جاؤ، ذرا اُس کے ساتھ کچھ باتیں کرو ،وہ اکیلی بہت جلد بور ہو جاتی ہے۔

اب ماشاء اللہ !اللہ پاک نظر بد سے بچائے دونوں کی ایسی دوستی ہوگئی ہے کہ شاید ہی ایسا کوئی کام ہو جو وہ اکیلی کرتی ہوں ، سب کام مل جل کر کرتی ہیں۔

اگر مجھے بھوک لگی ہے اور بھائیوں کو بھی تو بیوی کو کہتا ہوں پہلے میرے بھائیوں کو کھانا دو مجھے بعد میں دینا۔ عید پر بھائیوں کے کپڑے میں اپنے پیسوں سے لاتا ہوں، بیوی کو کہتا ہوں کہ تم کہنا امی نے پیسے دیئے تھے اُس سے آپ کے لیے بھی خریداری کی ہے۔

بیوی جب میکے جاتی ہے تو میری امی اُس کی پیٹھ پیچھے اُس کی تعریفیں کرتی نہیں تھکتی۔ اکثر کہتی ہیں میں نے نہ جانے کون سے اچھے کام کیئے تھے جو اتنی اچھی بہو ملی۔بیوی میرے ساتھ اکیلی بیٹھی ہو تو خُدا کی قسم اکثر کہا کرتی ہے، نہ جانے کون سے اچھے کام کیے تھے جو اتنی اچھی ساس ملی ہیں۔

میرا آپ لوگوں کو یہ سب بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اگر بنیاد اچھی رکھی گئی ہو تو گھر مضبوط رہتا ہے۔ بیوی کے گھر میں آتے ہی سلوک اچھا نہ یا بیٹی ،بہو میں برابر کا سلوک نہ ہو تو وہ گھر جلد ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔ کوئی بھی ساس یہ نہیں چاہتی کہ میری بہو مجھ سے لڑے اور کوئی بھی بہو یہ نہیں چاہتی کہ میری ساس مجھ سے لڑیں،مگر شوہر کی نا سمجھی کی وجہ سے ساس بہو کی لڑائی ہوتی ہے ،پھر شوہر عموماً اپنی بے وقوفی سے کسی ایک کو قصور وار ٹھہرا دیتا ہے، جب کہ قصور سب سے زیادہ شوہر کا ہی ہوتا ہے۔

شوہرکو لگتا ہے کہ شادی کر لی تو بس سب ہی خواہشات پوری ہوگئیں۔ سب کچھ اب خود ہی چلے گا۔ بیوی اور امی خود ہی آپس میں دوست بن جائیں گی، ایسا نہیں ہوتا، ساس بہوکی دوستی کرنے میں شوہر کو اہم کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ کسی کے گھر سے اُس کے جگر کا ٹکڑا لائے ہو، تمہیں کیا علم اُس کو ماں باپ نے کتنے لاڈ پیار سے پالا ہے۔

تمہیں کیا پتا عورت کتنی حساس اور نازک ہے، تمہیں بس اتنا پتا ہے کہ گھر خود ہی چلتا رہے گا۔ ایسا سوچنا غلط ہے۔ شادی کے بعد مرد پر دُہری ذمہ داری آجاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں نہ جس پودے کو پانی نہ دیا جائے وہ سوکھ جاتا ہے، بالکل اسی طرح جس گھر کو وقت نہ دیا جائے، اچھے بُرے کا خیال نہ رکھا جائے وہ گھر بھی مرجھائے ہوئے پھولوں کی طرح ہو جاتا ہے۔ کوشش کریں ہر لمحہ خوشیاں بانٹیں۔ (منقول)