انصار عباسی
اسلام آباد:سول سروس اصلاحات پر عمران خان کی حکومت کی ٹاسک فورس نے ملک بھر میں 68؍ سیشنز منعقد کیے تھے اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تین ہزار سے زائد افراد کے ساتھ دو سال کی مشاورت کے نتیجے میں سول سروس کے ڈھانچے، پراسیس اور مراعات کو جدید بنانے کیلئے تجاویز کا ایک جامع دستاویز تیار کیا تھا۔
تاہم، پی ٹی آئی حکومت میں کابینہ کی جانب سے اس دستاویز کی منظوری کے باوجود بیشتر تر تجاویز پر عمل نہیں ہوا تھا۔ بیوروکریسی کو شجر مردہ (Deadwood) سے پاک کرنے کیلئے ایک بڑی اصلاحات کو اگرچہ نافذ کیا گیا تھا، لیکن پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت نے اسے کالعدم (ریورس) کر دیا تھا۔
اب موجودہ حکومت کی سول سروس ریفارم کمیٹی، پی ٹی آئی حکومت کی طرح کی اصلاحات لانے پر غور کر رہی ہے۔ڈاکٹر اشتر حسین کی زیرقیادت ٹاسک فورس برائے سول سروس ریفارم نے موجودہ سی ایس ایس امتحانات کی اسکیم تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔
ٹاسک فورس نے ابتدائی اسکریننگ ٹیسٹ، ڈومین بیسڈ کلسٹر پر مبنی امتحان، سائیکو میٹرک تشخیص، اسٹرکچرڈ انٹرویوز اور سسٹم آٹومیشن متعارف کرانے کی تجویز دی تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے اس پر عمل نہیں کیا تھا۔ٹاسک فورس نے سرکاری ملازمین کی تربیت کیلئے نئی اسکیم کی تجویز بھی دی تھی۔
تجویز دی گئی تھی کہ مڈل کیریئر مینجمنٹ کورس (ایم سی ایم سی) اور سینئر مینجمنٹ کورسز (ایس ایم سی) کو جنرل مینجمنٹ اور خصوصی تربیتی کورسز میں تقسیم کیا جائے۔ اس تجویز کو نافذ کیا گیا تھا۔ لیکن، خصوصی تربیتی اداروں کی تنظیم نو، ایکس کیڈر اور نان کیڈر سرکاری ملازمین کیلئے لازمی تربیت سے متعلق تجویز پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔
کارکردگی کی جانچ پڑتال (پرفارمنس مینجمنٹ) کے حوالے سے یہ تجویز دی گئی تھی کہ مفروضی اے سی آر (Subjective ACR) سسٹم کو ایک بامقصد پرفارمنس ایوالیوشن رپورٹ (پی ای آر) میں تبدیل کیا جائے جس میں اہداف متعین کیے گئے ہوں اور کارکردگی کے کلیدی اشارے (کے پی آئی) اُس افسر کی کارکردگی کے ساتھ ہم آہنگ ہو رپورٹ کرنے والے کے ساتھ متفق ہوں۔
وزیراعظم اور وزراء کے درمیان کارکردگی کے معاہدوں پر دستخط ہوئے لیکن سرکاری ملازمین پر نئے نظام کا اطلاق نہ ہونے کے برابر رہا حالانکہ نئے پروفارمے بنائے گئے تھے۔ سنیارٹی کم فٹنس کے پرانے نظام کو سلیکشن بورڈ کے ذریعہ ہر امیدوار کی کارکردگی، تربیتی نتائج، صلاحیت کی تشخیص، اور دیانتداری کی مقداری جانچ (Quantitative Evaluation) سے بدل دیا گیا۔
کارکردگی نہ دکھانے والوں کو20؍ سال کی ملازمت کے بعد ریٹائر کرنے کی پالیسی متعارف کرائی گئی، ہائی کورٹ نے بھی اسے برقرار رکھا تھا لیکن، پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت نے اسے کالعدم (ریورس) کر دیا۔ معاوضے اور مراعات کے حوالے سے، ٹاسک فورس نے گریڈ17سے22کے افسران کیلئے تمام مراعات، الاؤنسز، رہائش اور ٹرانسپورٹ کو مونیٹائیز کرنے کی تجویز دی تھی۔
یہ بھی سفارش کی گئی کہ تنخواہ میں سالانہ اضافہ پورے بورڈ میں مساوی انکریمنٹ کی جگہ کارکردگی کے جائزے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی درجہ بندی (Performance Evaluation Rating) پر مبنی ہونا چاہئے۔ اس تجویز پر بھی پی ٹی آئی حکومت نے عمل نہیں کیا۔ٹاسک فورس کی طرف سے یہ بھی تجویز دی گئی تھی کہ 16 وفاقی وزارتوں میں ایک کھلے، مسابقتی عمل کے ذریعے تکنیکی ماہرین اور تکنیکی مشیروں کو موضوع کی مہارت کے ساتھ تعینات کیا جائے۔ اسے جزوی طور پر نافذ کیا گیا۔
حال ہی میں سیکرٹری آئی ٹی کو پرائیویٹ سیکٹر سے بھرتی کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران اور ٹاسک فورس کی سفارشات پر 62؍ سرکاری اداروں اور کارپوریشنز کے چیف ایگزیکٹو افسران اور مینیجنگ ڈائریکٹرز کا ایک کھلے اور میرٹ پر مبنی مسابقتی عمل کے ذریعے انتخاب مکمل کیا گیا اور مثبت نتائج کے ساتھ 16؍ غیر ملکی پاکستانیوں کو مختلف اداروں کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
پنشن اصلاحات کے حوالے سے، نئے بھرتی ہونے والوں کیلئے طے شدہ فوائد (Defined Benefits) کی جگہ طے شدہ حصہ (Defined Contribution) نامی پالیسی لانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اس پر موجودہ حکومت نے عمل کیا ہے۔ یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ کچھ کیڈرز کیلئے اسامیاں مخصوص کرنے کی پالیسی کی بجائے میرٹ اور مواقع کی مساوات کو یقینی بنانے کیلئے 19؍ گریڈ کے تمام ملازمین کو صرف فیڈرل سیکریٹریٹ میں صرف اسی صورت اعلیٰ گریڈز میں پروموٹ ہوں گے جب وہ پبلک سروس امتحانات میں شرکت کریں اور میرٹ اور مسابقتی عمل کے نتیجے میں منتخب ہوں۔
اس عمل کے نتیجے میں منتخب ہونے والے امیدوار کو چار میں سے کسی ایک کلسٹر وزارتوں کیلئے منتخب کیا جائے گا:ان میں یہ وزارتیں شامل ہیں:اقتصادی امور، سوشل سیکٹر، ٹیکنیکل، جنرل مینجمنٹ۔ اس تجویز کو پی ٹی آئی حکومت نے منظور نہیں کیا تھا۔