السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
تصویر کیسے بن گئی؟
’’حالات و واقعات‘‘ میں ہمیشہ کی طرح منور مرزا موجود تھے اور مشرق ِوسطیٰ سے متعلق بہترین تجزیہ پیش کیا۔ ’’خود نوشت‘‘ کی دوسری قسط پڑھی، جو پہلی سے بھی بڑھ کر تھی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں فاطمہ شکیل کا تحریر کردہ افسانہ ’’فرضِ عین‘‘ بہت پسند آیا اور ’’آپ کا صفحہ ‘‘ میں اسماء خان کافی عرصے بعد دکھائی دیں اور آتے ہی ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ کی کرسی بھی سنبھال لی۔
واہ بھئی، بہت مبارک ہو۔ اگلے شمارے کے’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے آئی ایم ایف پروگرام پر روشنی ڈالی۔ حسبِ روایت یہ بھی بہترین تجزیہ تھا۔ ’’خود نوشت‘‘ کا سلسلہ بخوبی آگے بڑھ رہا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں طوبیٰ احسن کا افسانہ دیوانگی زبردست تھا۔ ہاں، ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ سلسلے میں سید حیدر عباس نقوی کے نانا جان 1956ء میں پیدا ہوئے، جب کہ پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم، لیاقت علی خان 1951ء میں شہید کردیئے گئے تھے، تو پھر اُن کے ساتھ نانا جان کی تصویر کیسے بن گئی؟؟ (رونق افروز برقی، دستگیرکالونی، کراچی)
ج: سوفی صد درست نشان دہی کی ہے آپ نے۔ غلطی بےشک لکھاری ہی کی ہے، لیکن ہمیں بھی ایڈیٹنگ کے وقت اِس بات کا دھیان ضرور رکھنا چاہیے تھا، بےحد معذرت چاہتے ہیں۔
شاہ فیصل کالونی نمبر3 سے کوئی اور…؟؟
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمّد عبدالمتعالی نعمان نےحضورﷺ کے اخلاق، اُسوۂ حسنہ پر شان دار مضمون تحریر کیا۔ مولانا شعیب احمد فردوس بھی نبی پاکﷺ کی ولادتِ باسعادت سے متعلق خُوب صورت مضمون لائے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے امریکی انتخابات پر اچھا تبصرہ کیا اور اِسے پاکستانیوں کے لیے کڑا امتحان قراردیا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں رستم علی خان نے گورکھ ہِل اسٹیشن کے ماسٹر پلان کے29 برس بعد بھی بات، کاغذی کارروائی سے آگے نہ بڑھنے پر توجّہ مبذول کروائی۔ محمّد ارسلان فیاض، بلوچستان اسمبلی میں خواتین ارکان کے کردارکا جائزہ لے رہے تھے۔
عشرت جہاں کا افسانہ بہترین تھا۔ اور ہاں، اس بار ’’آپ کا صفحہ ‘‘ میں آپ نے بالکل ہمارے خط سے مِلتا جُلتا ایک خط کسی اورنام سے شائع کردیا، جب کہ ایڈریس بھی بعینیہ وہی تھا، جو ہمارا ہے۔ یہ ہمارے ساتھ بہت زیادتی ہے یا واقعی شاہ فیصل کالونی نمبر3 سے کوئی اورصاحب بزم میں شامل ہوگئے ہیں؟؟ اس بار خادم ملک کے خط میں بھی کوئی لطیفہ نہیں ملا۔ اگلے جریدے کے’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمد ثانی کا مضمون شان دار تھا۔
’’انٹرویو‘‘ میں منور راجپوت نے معروف و منفرد خطّاط واصل شاہد سےمفید بات چیت کی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم نبیٔ پاک ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا ہونے کا سبق دے رہی تھیں۔ فیصل کان پوری نے بہزاد لکھنوی کے حالاتِ زندگی تحریر کیے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ بھی ڈاکٹر ثانی ہی کی تحریر سے مرصع نظر آیا۔’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی کا واقعہ دل کو لگا۔ اور ’’آپ کا صفحہ ‘‘ میں خادم ملک کا خط بھی جگمگارہا تھا، میگزین کا لطف دوبالا ہوگیا۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر 3، کراچی)
ج: ارے نہیں بھئی، شاہ فیصل کالونی نمبر 3 سے ہمارے ’’ون اینڈ اونلی‘‘ نامہ نگار آپ ہی ہیں۔ اللہ جانے کمپوزر نے سیّد زاہد علی کی جگہ سیّد عابد علی کیسے کمپوز کردیا اور ہم نے بھی پروف کے وقت زیادہ غور نہیں کیا۔ بہرحال، ہم تہہ دل سے معذرت خواہ ہیں۔
کارہائے نیک
میگزین ملا، بصد شوق پڑھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے صفحے پر آپ کی ایک تحریرپہ نظر پڑی، جس میں آپ شکوہ کُناں تھیں کہ ’’پیارا گھر‘‘ کے لیےکھانے پکانے کی تراکیب کم بھیجی جارہی ہیں، جب کہ سب سے زیادہ فرمائش، اِن ہی کی ہوتی ہے۔ تو لیجیے جناب! آپ کی فرمائش پر دو پکوانوں کی تراکیب ہماری طرف سے بھی بھجوائی جا رہی ہیں، حالاں کہ عمومی طور پر تو یہ کام خواتین ہی کے لیے مخصوص مانا جاتاہے، لیکن ہم نے سوچا، چلیں آپ کے لیے یہ کارہائے نیک ہم ہی انجام دے دیتے ہیں۔ (محمّد صفدر خان ساغر، نزد مکّی مسجد،راہوالی، گوجرانوالہ، پنجاب)
ج: جی، بہت عنایت۔ اشاعت سے زیادہ، اگر پکانے لائق ہوئیں، تو ضرور شایع کر دی جائیں گی۔
ہر گھر کی ضرورت
سنڈےمیگزین ایک منفرد اور بہت ہی شان دار رسالہ ہے، جو میرے خیال میں تو ہرگھر کی ضرورت ہے اور ہرصاحبِ علم کو اس کا لازماً مطالعہ کرنا چاہیے کہ اِس میں ہرایک ہی کے ذوق کے مطابق بھرپور مواد اور معلومات دست یاب ہوتی ہیں۔ غور کیا جائے، تو یہ ہر طبقۂ فکر ہی کے لیے ایک بہترین میگزین ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ تا ’’آپ کا صفحہ‘‘ کوئی ایک بھی سلسلہ آپ کو ہرگز ناامید و مایوس نہیں کرے گا۔ (شری مرلی چند گوپی چند گھوکھلیہ،ضلع شکارپور، سندھ)
ج: ہم توآپ کی رائے سے سو فی صد متفّق ہیں۔ اللہ کرے، عوام النّاس بھی متفّق ہوجائیں، تو کم ازکم وہ جو سَروں پر ہمہ وقت کی ایک تلوار سونتی گئی ہے کہ’’جریدہ آج بند ہواکہ کل ہوا‘‘، وہ تو میان میں جائے۔
سنگلاخ سرزمین سے بازیابی
سلامِ عاجزانہ! اکتوبر کےدوسرے شمارے کے سرِورق پر شہید فلسطینی رہنما حسن نصراللہ، نواب اسلم رئیسانی (چیف آف ساراوان) اور خُوب رُو، دل آویز ماڈل کی تصویر پر نگاہ ڈال کے آگے بڑھے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ کے تسلسل میں ہردل عزیز تجزیہ نگار، منور مرزا مشرقِ وسطیٰ میں حسن نصراللہ کےبعد کی متوقع تبدیلیوں کا نہایت اہم حقائق کی روشنی میں پُرمغز و مدلّل تجزیہ پیش کررہے تھے۔ نیز، اُنھوں نے نہایت اہم نوعیت کے سنجیدہ سوالات بھی اٹھائے۔
اوستہ محمّد، بلوچستان سے عبدالستار ترین نے اپنی ’’رپورٹ‘‘ میں مذہبی ہم آہنگی کے تناظرمیں اقلیتی رہنمائوں، علمائے کرام، سیاسی و سماجی قائدین، منتخب عوامی نمائندوں اور انتظامی افسران کی آراء پیش کیں۔ سو فی صد نہیں، ہزار فی صد درست اور صائب بات کہ ’’رابطے بڑھیں گے، تب ہی شکوے، گلے کم ہوں گے۔‘‘ بےشک، بین المذاہب ہم آہنگی، رواداری اور برداشت ہی سے ایک پُرامن، ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔
کوئٹہ سے وحید زہیر ’’گفتگو‘‘ میں چیف آف ساراوان سابق وزیرِاعلیٰ بلوچستان، نواب اسلم رئیسانی کے تلخ وشیریں خیالات منظرِعام پر لائے۔ ’’متفرق‘‘ میں بابرسلیم خان نےعالمی شہرت یافتہ ناول نگار، لیوٹالسٹائی سے حالاتِ زندگی بیان کیے، تو محمّد عُمر اسرار’’عام آدمی‘‘ کے طرزِعمل کے حوالے سے بہت تلخ حقائق طشت ازبام کر رہے تھے۔ محمّد کاشف کا ہیروں پر سرمایہ کاری کے ضمن میں مضمون اہم تھا، تو’’ڈائجسٹ‘‘میں سحر ملتانی کی غزل بھی کیا خُوب تھی، جب کہ ’’ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کاروں‘‘ کی بھی ایک لمبی فہرست دکھائی دی۔
’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں سلیم اللہ صدیقی کی ’’دائروں میں سفر کرتی پاکستانی معیشت کے 75 سالوں کی رُواداد‘‘ کا جواب نہ تھا۔ اُسی سے علم ہوا کہ 1991 ء سے 2024 ء تک مختلف حکومتوں نے نج کاری کمیشن میں 13 چیئرمین لگائے، جنہوں نے کُل 177 شعبہ جات میں نج کاری کی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں خُوب رُو دوشیزہ کی ماڈلنگ اور آپ کے الفاظ نے خُوب ہی جادو جگایا۔ پاکستانی پولیس سروس کے رول ماڈل کی ’’خودنوشت‘‘ کی چوتھی قسط میں ایک دل چسپ، یادگار، ناقابلِ فراموش واقعہ بھی موجود تھا۔ فاطمہ شکیل کے’’فرض عین‘‘ کے کیا کہنے۔
اختر سعیدی نئی کتابوں پر ہمیشہ ہی بہترین تبصرہ کرتےہیں۔ گویا سمندر کو کوزے میں بند کر دیتے ہیں اورآخرمیں اپنے پیارے صفحے کی بات، اس بار آپ سے ایک نہایت اہم سوال(جو اکثر میرے ذہن میں بھی آتا تھا) ’’ہجرت کے ساتھ کون سا مقام متعین ہوگا؟ ‘‘دریافت کیا گیا۔ اور آپ نے اُس کا بہترین، صائب اور مدلل جواب بھی عنایت کیا۔ بےحد شکریہ۔
عرصۂ دراز سے لاپتا/گم شدہ اسماء خان دمڑ اس بار مسند نشیں دکھائی دیں، تو بہت ہی خوشی ہوئی۔ بلوچستان کی سنگلاخ سرزمین سے ایک قلم کار / لکھاری کی بازیابی پر اہلِ وطن کو دلی مبارک باد۔ (عاجزداد فریادی ابنِ غلام نبی (مرحوم)سبّی روڈ، کوئٹہ، بلوچستان)
ج:’’سنڈے میگزین‘‘ میں تو جس قدراہمیت اور ترجیح ’’بلوچستان‘‘ کو دی جاتی ہے، غالباً کسی کو نہیں دی جاتی۔ سو، آپ کے یہ ’’گم شدہ، لاپتا افراد اور بازیابی‘‘ والےتیرکا رُخ کم ازکم ہماری جانب تو نہیں ہو سکتا۔
فضول، بےباکانہ باتیں
’’سنڈے میگزین‘‘ میں ڈاکٹر حقّانی کا ایمان افروز مضمون پڑھ کرتو رونگٹے کھڑے ہوگئے، بہت دل بَھر آیا کہ ہمارے نبی کریمﷺ کس قدر رحم دل تھے۔ منور راجپوت، کتابوں پر تبصرہ کسی اسپیشلسٹ کی طرح کرتے ہیں۔ منور مرزا پاکستان کے آئی ایم ایف سے دوستانہ مراسم کی نوید دے رہے تھے۔ ویسےاللہ ہی جانے یہ رقوم کہاں جارہی ہیں۔ مُلک ہے کہ قرض کی دلدل میں دھنستاہی چلاجارہاہے۔
رؤف ظفر پاکستانی پاسپورٹ کی بےوقعتی کا نوحہ لائے، پڑھ کے دل خون کے آنسو رودیا۔ ماڈل اقراء کے پہناوے اوراشعار سےمزیّن آپ کی تحریر، دونوں جوبن پہ نظرآئے۔ طوبیٰ حسن کا افسانہ ’’دیوانگی‘‘ اچھی کاوش تھی۔ ہمایوں ظفر کی مرتب کردہ تحریریں بھی عُمدہ رہیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے خطوط، آپ کے جوابات ہمیشہ کی طرح بہت ہی مزے دارلگے، لیکن یہ بےکار ملک کی فضول، بےباکانہ باتیں کہ ’’بیگم آدھا آدھا گھنٹا مُرغا بنائے رکھتی ہیں‘‘ بہت ہی چھچھورا مذاق تھا۔ ناحق ہی لوگوں نےاِنھیں کچھ زیادہ ہی سر چڑھا لیا ہے اور یہ صاحب ہیں کہ پھیلتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفر گڑھ)
ج: ہاہاہا…اب کہیں سیّد زاہد علی آپ کے وارنٹ نہ نکلوا دیں کہ اُنھوں نے تو غالباً اِن بےکار صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی ہے۔
فی امان اللہ
شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق پر ماڈل کا تبسّم عِطر جیسا… دیکھتے آگے بڑھ گئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا لبنان کے پیجر دھماکوں کی ہول ناکی پر روشنی ڈال رہےتھے،واقعی جدید ٹیکنالوجی نے جنگوں کا طریقۂ کار ہی بدل دیا ہے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ’’وقت کا کربلا، غزہ‘‘ کےعنوان سے دوحا کانفرنس کی رُوداد سُنا رہی تھیں۔ فلسطینی خواتین کے عزم و ہمّت کو سلام ہے کہ خاندان شہید ہوگئے، بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں مگر، اِن کے حوصلے سلامت ہیں۔
’’اشاعتِ خصوصی‘‘ کے ذریعے اصلاحِ معاشرہ میں معلمین کے کردار کو بھی بخوبی اجاگر کیا گیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں نادیہ سیف مثبت عادات کو مسرور و خوش حال زندگی کی کنجی بتا رہی تھیں۔ بےشک، ’’زبان شیریں، تو ملک گیری‘‘۔ علیزہ انور نے مزے دار قیمہ رول، چکن رول اور چکن برگر کی تراکیب سکھائیں، تو ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کے پاس جاتے تو ’’کانپیں ٹانگ جاتی ہیں‘‘۔ ’’انٹرویو‘‘میں رؤف ظفر نے ڈاکٹر صومیہ اقتدار سے خصوصی بات چیت کی۔
پڑھ کر خوشی ہوئی کہ گلوبل ہیلتھ کی 100خواتین میں اُن کا نام بھی شامل ہوا۔ بے شک، ہماری خواتین کسی سےکم نہیں۔ ’’متفرق‘‘ میں بنتِ صدیق نے نئی نسل کو بزرگوں کے تجربات سے استفادے کی ترغیب دی۔ ’’خود نوشت‘‘ میں ذوالفقار احمد چیمہ کی کہانی، خُود اُن کی زبانی پیش کیجا رہی ہے۔ اے کاش! ہمارا ہر پولیس افسر ایسا ہی فرض شناس ہوجائے۔ ڈاکٹر ناظر محمود نے ہمیں روایتی اور متوازی سنیما کا فرق بھی خُوب سمجھایا۔
بابر سلیم خان عظیم ناول نگار و افسانہ نگار لیوٹالسٹائی سے متعلق رقم طراز تھے۔ جب کہ ہمارے اپنے صفحے پر ہماری دو چِٹھیوں کے مرکب کو اعزاز بخشا گیا، بےحد شکریہ ۔ اگلے شمارے سےآنکھ بند کرکے ہم توکیا، کوئی عابد و زاہد بھی نہیں گزرسکتا تھا۔ سو، نگاہ اُٹھا کے دیکھ ہی لیا۔
اپنی غلطی ہم خُود ہی مان رہے ہیں، تو درگزرفرمائیےگا۔ یوں بھی ہمیں اعتراف ہے کہ اسّی کے پیٹے میں ہونے کے باوجود، ہم نے بہت کچھ آپ اور آپ کے جریدے سے سیکھا ہے۔ ہمیں جذباتیت اور غصّہ والد سے وَرثے میں ملا، مگر اب خلافِ طبیعت ناگوار باتیں بخوشی برداشت کرلیتے ہیں اور مثبت تنقید پر۔
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا حسن نصراللہ کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں تبدیلی اور اسرائیل، ایران کشیدگی سےعلاقے کی خطرناک صورتِ حال کے ضمن میں خاصے فکرمند آئے۔ عرب ممالک کی مسلسل خاموشی لمحۂ فکریہ ہے، اُنہیں سوچنا چاہیے کہ ایران، لبنان اور یمن کے بعد کسی کا بھی نمبر آسکتا ہے کہ جو بھی ’’گریٹراسرائیل‘‘ منصوبے کی راہ میں آئےگا، برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ’’گفتگو‘‘ میں وحید زہیر نے بلوچستان کے سابق وزیرِاعلیٰ محمّد اسلم خان رئیسانی سے کافی تلخ و شیریں بات چیت کی۔
’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں سلیم اللہ صدیقی کا 75 سالہ معیشت کے نفع و نقصان کا تجزیہ بہترین تھا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ نے منیر نیازی کی نظم ’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں…‘‘ یاد کروائی،جوہمارے قومی حالات کی بھی خُوب عکّاسی کرتی ہے۔’’خودنوشت‘‘ پڑھ کے کچھ ہمّت وحوصلہ ملتا ہے کہ الحمدُللہ، ابھی کچھ گوہرِ نایاب تو باقی ہیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں عبدالستار ترین بین المذاہب تعلقات پرروشنی ڈال رہےتھے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں فاطمہ شکیل نے بھی ’’احساسِ ذمّے داری‘‘ کے موضوع پر خُوب صُورت افسانہ تحریر کیا۔
بلاشبہ ایک ایک بلب بھی پوری قوم کوغیرضروری طور پر بند کرنا چاہیے، تب ہی ہم کچھ بجلی بچا کربھاری بھرکا بلز کے عفریت سے نجات پائیں گے۔ سحر ملتانی کی غزل اچھی تھی۔ ’’متفرق‘‘ میں محمّد عمر اسرار، عام آدمی کے جھوٹ و فریب کی بابت حقیقت پسندی کا اظہار کرہے تھے۔ عام آدمی تو ایک طرف، جب ’’اُمتِ مسلمہ کا نام نہاد لیڈر‘‘ یُوٹرن پر شرمانے کے بجائے، فخر کرتا پِھرے، تو اس قوم کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
محمّد کاشف نےاِس بار ہیروں پر سرمایہ کاری جیسے منفرد موضوع کا اتنخاب کیا، اچھا لگا۔ اختر سعیدی نئی کتابوں پر بہترین تبصرے کے ساتھ اور ہمارے صفحےپراسماء دمڑ بہترین چٹھی کے ساتھ جلوہ گر تھیں، دیکھ کے دل خوش ہوگیا۔ (شہزادہ بشیرمحمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج : آپ نے تحمّل وبرداشت کا درس ہم سے لیا ہے، بخدا پڑھ کے ہنسی آگئی کہ ہمارا اکھڑ پن، بد دماغی اور صاف گوئی تو حلقۂ احباب میں ضرب المثل ہے۔
* ’’سنڈے میگزین‘‘ کا تازہ شمارہ نیٹ پر پڑھا۔ ہربار کی طرح نئےموضوعات اور نئے رنگوں سے سجا جریدہ دل وجاں کوخُوب بھایا۔ بوڑھے افراد سےمتعلق پیش کردہ حقائق تکلیف دہ تھے۔ ’ڈائجسٹ‘‘ کی نظمیں بہت پسند آئیں، خصوصاً ’’خیالوں کے سفر‘‘ کےعنوان سے ڈاکٹر شمیم آذر کی نظم بہترین تھی۔ ڈاکٹر شمیم آذر ڈاؤ میڈیکل میں ہم سے سینئر ہوا کرتے تھے۔
ہاں، یہاں ایک اہم بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ اچانک یہاں پردیس میں محترمہ نادیہ ناز غوری سے متعلق، جو ’’سنڈے میگزین‘‘ کی باقاعدہ لکھاری تھیں اور اکثر اُن کے خُوب صُورت مضامین پڑھنے کو ملتے رہتےتھے، خبر ملی کہ وہ رحلت فرما گئی ہیں۔ وہ مقامی کالج میں لیکچرار بھی تھیں۔ اِس اچانک جوان موت کا بہت گہرا صدمہ ہوا۔ واقعی، یہ موت تو نہ عُمردیکھتی ہے نہ وقت۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اوراُن کا لکھا، اُن کے لیے صدقۂ جاریہ بن جائے۔ (ڈاکٹر عزیزہ انجم، ٹورنٹو، کینیڈا)
ج: ہائے ڈاکٹر عزیزہ! نادیہ کی جدائی کا دُکھ بہت گہرا ہے۔ وہ صرف اچھی لکھاری ہی نہیں، بہت اچھی انسان بھی تھی۔ انتہائی مہذّب، شُستہ و شائستہ۔ اور ہمارا اُس سے صرف ایک لکھاری یا قاریہ ہی کا نہیں، چھوٹی، پیاری بہنوں سا ایک اٹوٹ قلبی وذہنی تعلق بھی تھا۔
وہ بہت کم عُمری سے ’’سنڈے میگزین‘‘ کے لیے نہ صرف لکھتی تھی، بلکہ ایسا شان دار لکھتی تھی کہ خال ہی کبھی ایڈیٹنگ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ خصوصاً ہرعید تہوار کا رائٹ اَپ بہت ہی شوق اورمحبّت سے لکھتی، اورماہ بھر پہلے ہی ہمیں بھیج دیتی۔
کبھی کبھار میسیج پر بات چیت بھی ہوجاتی۔ اندازہ ہوتا کہ انتہائی اعلیٰ کردارو اخلاق کی حامل لڑکی ہے۔اور یہ تو اُس کے جانے کے بعد پتا چلاکہ وہ تو سات بھائیوں کی انتہائی لاڈلی، پیاری بہن تھی۔ ماں تو ماں، بھابھیاں تک اُس کے لیے پچھاڑیں کھارہی تھیں۔
بخدا ہم سے نادیہ کا دُکھ کسی طور بُھلایا نہیں جا رہا۔ جب سے پتا چلا ہے، کوئی نمازایسی نہیں ہوتی، جس میں اُس کی بخشش اور بلند درجات کی دُعا نہیں کی جاتی۔ قارئین سے بھی التماس ہے کہ اس کی مغفرت اوراہلِ خانہ کے صبروقرار کے لیے دُعا کریں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk