• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران نے جارحانہ بیانات دینا بند نہ کئے تو مذاکرات پر سنگین خدشات لاحق ہونگے

اسلام آباد: (انصار عباسی)…اگر عمران خان نے ’’جارحانہ‘‘ بیانات دینے کا سلسلہ بند نہ کیا تو حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا آگے بڑھنا مشکل ہوجائے گا۔ 

عمران خان کا تازہ ترین بیان، وزیراعظم اور آرمی چیف پر تنقید، پہلے ہی مذاکراتی عمل کو متاثر کر چکی ہے۔ نہ صرف حکومتی فریق بلکہ تحریک انصاف میں بھی کچھ رہنما ایسے ہیں جنہیں دو طرفہ مذاکرات کے آغاز کے بعد سے سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے عمران خان کے بیانات پر تحفظات ہیں۔ 

مذاکرات کرنے والی حکومت کی ٹیم کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے رابطہ کرنے پر کہا کہ ہم اب تک یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ عین مذاکراتی عمل کے دوران بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اتنا سخت اور اتنا تلخ ٹوئیٹ کیوں کیا؟ 

انہوں نے ایک مرتبہ پھر حمود الرحمان کمیشن یاد دلایا، ایک مرتبہ پھر یحییٰ خان کا حوالہ دیا، ایک مرتبہ پھر موجودہ صورتحال کو یحییٰ خان کے دور سے تشبیہہ دی، وزیراعظم شہباز شریف کو جنرل عاصم منیر کی کٹھ پتلی اور اردلی قرار دیا۔ 

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ ٹوئیٹ نہ صرف مذاکراتی عمل پر مہلک حملہ ہے بلکہ اس نے حکومتی مذاکراتی ٹیم کی مخلصانہ کوششوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے، اس طرح کی بات کی کسی جماعتی رہنما یا کارکن کی طرف سے تو توقع کی جا سکتی ہے لیکن عمران خان کی طرف سے ایسی بات بہت تکلیف دہ ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل کا آغاز اُن کے اصرار پر ہوا، ان کی طرف سے 5؍ دسمبر کو کمیٹی بنی، اب اگر عمران خان خود ہی اس طرح کے ٹوئیٹ کریں گے تو اس کا کیا مطلب لیا جائے؟ 

عرفان صدیقی نے کہا کہ تصور کریں اگر ایسا ٹوئیٹ وزیراعظم، صدر زرداری، بلاول بھٹو یا میاں نواز شریف کی طرف سے آتا تو پی ٹی آئی کیا قیامت کھڑی کر دیتی؟ وہ ہرگز مذاکرات جاری نہ رکھتی۔ 

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے ٹوئیٹس مذاکراتی عمل کیلئے بڑا خطرہ ہیں اور یہ بند نہ ہوئے تو مذاکرات جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ سرکردہ رہنما بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو چلائے جانے کے انداز (ہینڈلنگ) سے خوش نہیں ہیں۔ 

یہ رہنما عمران خان کی عسکری قیادت پر مسلسل تنقید اور پارٹی کے سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے پر زیادہ پریشان ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایسے رہنماؤں میں یہ احساس ہے کہ اگر عمران خان فوج کی اعلیٰ کمان پر تنقید بند نہیں کرتے تو کوئی مذاکراتی عمل کامیاب ہو سکتا ہے اور نہ پارٹی کو سیاسی جگہ ملے گی۔ 

پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں کچھ رہنماؤں نے یہ مسئلہ عمران خان کے ساتھ بھی اٹھایا تھا اور انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی رہنماؤں کی ایک ٹیم کو اپنے (عمران خان) اور پارٹی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو ہینڈل کرنے دیں۔ لیکن عمران خان نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ 

حال ہی میں اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کرنے والے فواد چوہدری نے کہا تھا کہ انہوں نے عمران خان سے کہا کہ پی ٹی آئی کو افراد کی بجائے مسائل پر توجہ دینے اور فوج اور اس کی اعلیٰ کمان کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سیاست میں منصفانہ جگہ ملے۔ 

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ انہوں نے عمران خان سے پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشیدگی کم کرنے کیلئے بیرون ملک سے اپنے ’’ایکس‘‘ (سابقہ ​​ٹویٹر) اکاؤنٹ کا کنٹرول پاکستان واپس لانے کو بھی کہا۔ عمران خان کا ایکس اکاؤنٹ آرمی چیف سمیت ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔

اہم خبریں سے مزید