اسلام آباد(رپورٹ:،رانا مسعود حسین) عدالت عظمی کے آئینی بنچ میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی 9مئی کی دہشتگردی اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث سویلین ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق عدالتی حکمنامہ کیخلاف دائر وفاقی حکومت کی انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت کے دوران اپیل گزار وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جبکہ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اکیسویں ترمیم کے فیصلے میں مہران اور کامرہ بیسز کا بھی ذکر ہے، جی ایچ کیو حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ پاکستان کے اربوں روپے مالیت کے دو اورین طیارے تباہ ہوئے تھے، کیا نو مئی کا جرم دہشتگردی کے ان واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ مہران بیس حملہ کے تمام دہشتگرد مارے گئے تھے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا ،کہ کیا انکے مارے جانے کے بعد کوئی تفتیش نہیں ہوئی تھی کہ وہ کون تھے؟ کہاں سے اور کیسے آئے تھے؟ کیا دہشتگردوں کے مارے جانے سے مہران بیس حملے کی فائل بند ہو گئی تھی؟ جس پر فاضل وکیل نے موقف اختیار کیا کہ تحقیقات تو یقینی طور پر ہوئی ہونگی؟ جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوا تھا اوراس کیس کا ٹرائل اکسیویں آئینی ترمیم سے پہلے ہوا تھا،سینئر جج،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں7 رکنی آئینی بینچ نے جمعرات کو مقدمہ کی سماعت کی، تو وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے موقف اختیار کیا کہ آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے لیکن فوجی عدالتوں کا آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی نظام میں ذکر نہیں ، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت تشکیل پاتی ہیں، جو تسلیم شدہ ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہاکہ ے آرٹیکل 175 کے تحت تشکیل پانے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں جبکہ مخصوص قانون کے تحت تشکیل پانے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے۔