السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
اپنی تعریف و توصیف کے لیے!!
مَیں تقریباً دو ماہ سے سخت بیمار تھا، تو اخبار پڑھنے کے لیے بیٹھنا بھی مشکل تھا، اب کچھ بہتر ہوا ہوں، تو صرف میگزین پڑھنے شروع کیے ہیں۔ ’’مرکزی صفحات‘‘ کی تحریر بھی اکثر پڑھ لیتا ہوں۔ 10نومبر کے جریدے میں ایک غزل ’’مبارک صدیقی‘‘ کے نام سے پڑھی۔ لیکن میرے پاس یہی غزل ڈاکٹر رضوانہ انصاری کے نام سے محفوظ ہے۔
تاریخ تو یاد نہیں، لیکن تقریباً دو سال پہلے جنگ اخبار ہی کے بڑے صفحے پر شائع ہوئی تھی۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ اصل شاعر کون ہے؟ اور یہ ڈاکٹر عزیزہ انجم امریکا کب پہنچ گئیں، یہ تو غالباً کراچی میں ہوتی تھیں۔ آپ کے تمام ہی لکھاری سب نگارشات بڑی محنت سے لکھ رہے ہیں، خاص طور پر منور مرزا اور منور راجپوت۔ ذوالفقار چیمہ کی ’’خودنوشت‘‘ اچھی تو ہے، مگر لگتا ہے، صرف اپنی تعریف و توصیف ہی کے لیے لکھ رہے ہیں۔ (مفتاح الحق انصاری، شادمان ٹاؤن، نارتھ کراچی، کراچی)
ج: ہم نے اپنے رائٹ اَپ کے ساتھ جو غزل مبارک صدیقی کے نام سے لکھی، وہ سو فی صد اُن ہی کی ہے کہ اگر ہمیں شاعر کے نام میں کوئی ابہام ہو، تو ہم غلط نام کے بجائے نام کے بغیر لکھنےکو ترجیح دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم کراچی میں ہوتی ہیں، لیکن اُن کے امریکا جانے پر بھی ہرگز کوئی پابندی نہیں، نہ ہی اُن کے آنے جانے کے اخراجات آپ کے ذمّے ہیں کہ آپ کو پریشانی لاحق ہو۔ ویسے اُن کی ’’رپورٹ‘‘ امریکا سے نہیں، ٹورنٹو، کینیڈا سے موصول ہوئی تھی۔
رہی بات، ’’خودنوشت‘‘ میں اپنی تعریف و توصیف کی، تو ایسا بالکل نہیں ہے۔ پوری تحریر حد درجہ معلوماتی، بے حد سبق آموز ہے۔ اگر کہیں کہیں رائٹر نے اپنی خُوبیوں، اوصاف کو اجاگرکیا بھی ہے، تو اُسے ہرگز چیلنج نہیں کیا جاسکتا کہ سچ تو بہرحال سچ ہی ہے۔ آپ کو اپنی پوری پولیس فورس میں ایسے بےداغ کردار کے حامل کتنے افسران ملتے ہیں؟ اگر یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر نہ ہوتی، تو شاید اِس ’’خُود نوشت‘‘ کی اشاعت کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔
دلہن ہی کی طرح سجی سجی
ڈاکٹرنجیب قاسمی نے’’اللہ پرتوکل‘‘ کے موضوع پہ قرآنی آیات و احادیث کی روشنی میں ایک بہترین مضمون لکھا۔ منورمرزا حالاتِ حاضرہ پر عمدہ تحریر لائے اور منور راجپوت تو اس دفعہ بہت ہی دل چسپ تحریر کے ساتھ آئے۔ ’’اُف یہ میاں بیوی…‘‘ گرچہ کچھ لطائف پُرانے تھے، مگر ایک ’’فیچر‘‘ کی صُورت بہت اچھے لگے۔ ’’اسموگ‘‘ پر سیما ناز صدیقی کی تحریر معلوماتی تھی، جب کہ ’’کتاب کی اہمیت‘‘ پر سید آفتاب نے بھی خُوب لکھا، مگر آج کی نسل تو کتاب سے بہت ہی دُور ہوگئی ہے۔
’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں اَدھ کُھلے گھونگھٹ کے ساتھ دلہن بہت پیاری لگ رہی تھی اور آپ کی تحریر بھی کسی دلہن ہی کی طرح سجی سجی (خُوب صُورت اقوال و اشعار سے) معلوم ہوئی۔ شادی بیاہ کا سیزن ہے، تو میگزین کا یہ انتخاب یقیناً قارئین کو خُوب بھایا ہوگا۔ ہاں، عالیہ زاہد بھٹی کی’’اسمِ اعظم‘‘ اور عندلیب زہرا کی ’’سُکھاں‘‘ بھی پسند آئیں۔ (رانا محمد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)
ج: اب اگر آپ نے مستقلاً جریدے پر تبصرہ نگاری کا آغاز کر ہی دیا ہے، تو براہِ مہربانی ایک زحمت اور بھی فرمائیں۔ خط حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھیں تاکہ ہمیں ایڈیٹنگ میں کچھ سہولت ہوجائے۔
’’نرگس‘‘ کا معرب
بہت سی نیک تمنّاؤں، دُعاؤں کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوں۔ سلام پیش کرتی ہوں، آپ اور آپ کے ٹیم ممبرز کو کہ اس قدر دورِ ابتلاء میں بھی، جریدے کا معیار و وقار قائم رکھنے میں کام یاب ہیں۔ آفرین، صد آفرین۔ ساتھ ہی ہر میگزین میں آپ کا رائٹ اَپ بھی، جو ہمیشہ ہی برمحل، برجستہ اور بہت دل نشین و سحر انگیز ہوتا ہے، کسی تحفے سے کم نہیں لگتا۔ دُعا ہے کہ اس نئے سال میں بچّوں کے بیگز کچھ ہلکے ہوجائیں۔
خدا کرےکہ امسال مائیں اپنے ہونہاروں کی تعلیم و تربیت کے لیےکچھ وقت نکال سکیں۔ ہاں، یکم دسمبر کے میگزین میں مسندی چٹھی پر بیٹھے ’’نقلی چچا غالب‘‘ نے اعتراض کیا تھا کہ ’’نرگس‘‘ تو پھول ہے، یہ ’’نرجس‘‘ نام عجوبہ لگا۔ تو اطلاعاً عرض ہے کہ نرجس کے معنی بھی پھول ہی کے ہیں۔
بس، یہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ یعنی نرگس فارسی لفظ ہے، تو اِس کا معرّب ’’نرجس‘‘ ہے۔ وائے افسوس! مرزا غالب کی تو رُوح بھی شرماگئی ہوگی کہ آج کے غالب کو اتنا بھی معلوم نہیں۔ ہماری رائے ہے کہ یہ غالب صاحب منہ میں گلوری رکھ کے لغت کا بغور مطالعہ کیا کریں۔ (نرجس مختار، خیر پورمیرس)
ج:ہاہاہا… ہمیں تھوڑی حیرانی ہوئی کہ آپ ہمارے نام پر اعتراض پہ اِس قدر جذباتی کیوں ہوگئیں، پھر یاد آیا، ارے! آپ تو خُود ہماری ہم نام ہیں۔ ہاں، پھر اتنا جذباتی ہونا تو بنتا ہے۔ ہمارے والد صاحب کو بھی وہ خط پڑھ کے شدید غصّہ آیا تھا اور ان کا غصّہ بھی بجا تھا کہ ہمارا نام رکھا ہوا تو اُن ہی کا ہے۔
آپ کا صفحہ، پہلا صفحہ
مَیں آج پنڈوری خورد، علی پور چٹھہ آیا ہوں اور آپ کا شمارہ بھی میرے ساتھ ہی آیا ہے۔ یہاں دراصل ہم شیرہ کی چاہت و محبّت کھینچ لائی ہے۔ اِس جریدے میں میرا خط بھی شاملِ اشاعت ہے، جس کی حددرجہ خوشی ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر تو ایک ملکانی صاحبہ چھائی ہوئی ہیں، خصوصاً 4 نمبر تصویر انتہائی گہری سنجیدگی و فلسفیانہ وقار لیے ہوئے ہے۔
رستم علی خان کی عام قاری کی معلومات کے لیے نادرا سے متعلق تحریرعُمدہ ہے۔ ویسے تو میگزین کی تمام ہی تحریریں لائقِ مطالعہ ہوتی ہیں اور معلومات میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ چلتے چلتے ایک تجویز پیش کرتا ہوں کہ اِس صفحے، اِس پیارے صفحے، ہمارے صفحے کو پیچھے سے اُٹھا کر مستقل طور پر اندرونی پہلے صفحے پر لے آئیں کہ میری طرح تقریباً سبھی قارئین اِس کی خاطر جریدے کو الٹی طرف سے پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ (محمّد صفدر خان ساغر، نزد مکی مسجد، محلہ شریف فارم، راہوالی، گوجرانوالہ)
ج:ہم شیرہ سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے تھے، تو ڈھنگ سے مل لیتے۔ وہاں جاکے یہ آٹھ، دس صفحات کی رام کہانی (جسے ایڈٹ کرکے یہ چند ایک متعلقہ جملے نکالے گئے ہیں) لکھنےکیوں بیٹھ گئے؟ براہِ مہربانی ذرا اپنی اصلاح فرمالیں ’’آپ کا صفحہ‘‘ سنڈے میگزین کے مندرجات پر آراء کے لیے مختص کیا گیا ہے، قارئین کی ’’رام لیلا‘‘ کے لیے نہیں۔ آپ اپنی دُکھ بھری داستانِ حیات لکھنے کے بہت آرزو مند ہیں، تو کوئی کتاب لکھ ڈالیں۔
منفرد، بہترین تحریر
’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں شمیم اختر کا ’’سقوط ڈھاکا‘‘ سے متعلق مضمون بہت پسند آیا۔ ایک منفرد اور بہترین تھی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا بشار حکومت کے خاتمے کے ضمن میں اپنے تجزیاتی مضمون کے ساتھ موجود تھے، بہت عمدہ۔
’’پیارا وطن‘‘ میں محمد ریحان نے بابو سرٹاپ کی سیر کروائی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عشرت زاہد کا افسانہ ’’درد کا درماں‘‘ خُوب رہا اور ہاں، اس بار توپرنس افضل شاہین بھی ’’خیر کے دروازے‘‘ کے ساتھ موجود نظر آئے، تو اچھا لگا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
پارہ پائی ہوجاتا ہے
فلسطین کے ضمن میں حافظ بلال بشیر کا کہنا سو فی صد بجا کہ صرف لفظی یک جہتی سے کچھ نہیں ہوگا، عالمِ اسلام کو عملی قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے بھی ایک شان دار تجزیاتی رپورٹ تحریر کی۔ فرخ شہزاد کے انٹرویوز ہمیشہ ہی خُوب ہوتے ہیں۔ منور راجپوت نے ’’ہمارے ادارے‘‘ کے تحت پی ٹی وی کے عروج و زوال کی رُوداد بہت ہی شان دار انداز سے بیان کی۔
’’خُودنوشت‘‘تو اب ہمارا مَن پسند سلسلہ بن چُکا ہے۔’’پیارا گھر‘‘، ’’ڈائجسٹ‘‘ اور’’ناقابلِ فراموش‘‘ سلسلے بھی ہمیشہ ہی پسند آتے ہیں۔ اگلے شمارے کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی کا ’’توکل علی اللہ‘‘ کے موضوع پرمضمون دل چُھوگیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ ہمیشہ کی طرح معلومات سے بھرپور تھا۔ سیما نازصدیقی نے ’’اسموگ‘‘ پر سیرحاصل معلومات فراہم کیں۔
’’پنجاب اسمبلی کے قواعد و ضوابط‘‘ شاہنواز خان نے گوش گزار کیے اور منور راجپوت کیا زبردست ’’فیچر‘‘ لائے، جواب نہیں۔ سید آفتاب حسین نے بھی کتاب کی اہمیت بخوبی اجاگر کی۔ اور ہاں، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا ذکر تو ضرور کروں گا، مگر اُس شخصیت کا بالکل نہیں کہ جن کا نام سن کر ہی آپ کا پارہ ہائی ہوجاتا ہے، حالاں کہ یہ حقیقت ہے کہ یہ صفحہ، اِک اُسی نام کے سبب خُوب جگمگاتا ہے۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج: ہاہاہا… پارہ ہائی نہیں ہوتا، آپ کی لایعنی محبّت و عقیدت کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔
آنکھ کی سُوجن برقرار ہے
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ناچیز دو ہی شماروں پر تبصرہ کرے گا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا متبرّک صفحہ ایک شمارے میں شامل تھا، ایک میں نہیں۔ ’’اُف یہ میاں بیوی‘‘ ہلکا پُھلکا سا خُوب صُورت ’’فیچر‘‘ پڑھ کے مزہ آیا۔ زیادہ تر لطائف بیویوں کے ظلم و ستم اور مَردوں کی مظلومیت ہی پر تھے۔
چند ایک بیگم سے بھی شیئرکرلیے۔ اور…آنکھ کی سُوجن اب تک برقرار ہے۔ ’’بلوچستان کی خستہ حال، غیر محفوط قاتل شاہ راہیں‘‘ عُمدہ ’’رپورٹ‘‘ تھی۔ قدرتی معدنیات سے مالامال صوبے کی سڑکیں توٹھیک ہونی ہی چاہئیں۔ بےشک، کتاب، انقلابی ترقی کا مؤثر ترین ذریعہ ہے اورخصوصاً اس اِس سوشل میڈیا کے دَور میں تو ہمیں کتب بینی کی طرف رغبت ضرور دلانی چاہیے۔
کسی نے کیا خُوب کہا ہے، ’’جس مُلک میں کتابیں فٹ پاتھ پر اور جوتے شوکیس میں فروخت ہوں، اس مُلک کےعوام کو پھر کتابوں کی نہیں، جوتوں ہی کی ضرورت ہے۔‘‘ ماہرِ موسمیات، ڈاکٹر محمد افضال کروڑی کا ’’انٹرویو‘‘ شان دار تھا۔ ’’خُودنوشت‘‘ کی دونوں اقساط نے بھی خُوب محظوظ کیا۔
’’لبنان میں جنگ بندی، حزب اللہ کے لیے نیا امتحان‘‘ منور مرزا کے تجزے کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ ’’عدم برداشت کا بڑھتا رجحان‘‘ اہم موضوع پر فکر انگیز ’’فیچر‘‘ تھا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘میں’’14روزہ امریکا یاترا‘‘ انتہائی دل چسپ رہی۔ ’’زیتون، خاموش سبز انقلاب‘‘ کا جواب نہ تھا۔ ہمیں اس خوش کُن انقلاب کی طرف ضرور بڑھنا چاہیے۔ کافی عرصے بعد لال کوٹھی، فیصل آباد کے محمّد سلیم راجا کی بھی ای میل نظر سے گزری، دل خوشی سے جھوم اُٹھا۔ کبھی وہ ہماری بزم کے مستقل ہیرو بھی ہوا کرتے تھے۔ (پرنس افضل شاہین، نادرشاہ بازار، بہاول نگر)
ج: یقیناً یہ آپ کی ’’آنکھ کی سُوجن‘‘ والی بذلہ سنجی، اُن بےشمار گھڑے گھڑائے لطائف ہی کی طرح کا ایک لطیفہ ہے، جو عمومی طور پر مَرد اپنی بیٹھکوں میں سُنا کے ناحق مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتے اورایک دوسرے کی ہم دردیاں بٹورتے ہیں۔
فی امان اللہ
شمارہ موصول ہوا، سرِورق پر ایک خوش جمال جلوے بکھیر رہی تھی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا پُرامید نظر آئے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ کا امکان نہیں۔ اللہ کرے، ایسا ہی ہو، ویسے ایران کی معاشی حالت کسی بڑی جنگ کی متحمّل ہو بھی نہیں سکتی، جب کہ اقوامِ متحدہ کے ہاتھ بھی امریکی ویٹو نے باندھ رکھے ہیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں حافظ بلال بشیر طلبہ تنظیموں کے ماضی، حال، مستقبل کا احوال سُنارہے تھے۔ بےشک، اِن تنظیموں نے قوم کوکئی اچھے لیڈرزدیئے ہیں۔
ہمارے زمانے میں عموماً دائیں، بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں ہوتی تھیں، جن میں چپقلش رہتی اور اِسے ہی روکنے کے لیے جنرل ضیاءالحق نے اِن پر پابندی لگائی۔ بعد ازاں، سیاسی جماعتوں کی حکومتوں نے بھی پابندی نہیں اُٹھائی۔ منیٰ جاوید ماحولیاتی آلودگی کے نقصانات پر تشویش کا اظہار کررہی تھیں۔ اس تشویش ناک خبر کے بعد بھی کہ اسموگ سے طبعی عُمر سات سال کم ہوسکتی ہے، کان کھڑے نہیں ہوئے، تو کب ہوں گے۔
پہلے ہی اوسط عُمر65 برس ہے، تو اب اٹھاون سال، ایک المیہ ہی کہلائے گا، جب کہ دنیا میں اوسط عمر ستّر سے پچھتر برس ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر مظیر احمد چکن گونیا کی علامات اور مچھر سے ہونے والے دیگر امراض کے فرق سے آگاہ کررہے تھے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم ٹورنٹو، کینیڈا میں ہونے والے اسلامی کنونشن کی رُوداد سُنا رہی تھیں۔ واقعی مغربی ممالک میں اسلام کی آواز پہنچانا بڑی سعادت کا کام ہے۔
ہم تو ڈاکٹر عزیزہ کوکم عُمر سمجھتے تھے، مگر افکار و خیالات سے اندازہ ہوا کہ جہاں دیدہ خاتون ہیں۔ اقصیٰ پرویز کراچی کے مسائل پر نوحہ کُناں تھیں۔ ؎ کوئی اُمید بر نہیں آتی، کوئی صُورت نظرنہیں آتی۔ بی بی! پاکستان، خصوصاً سندھ کے سب شہروں کا تقریباً ایک سا حال ہے۔ سب مسائلستان کا جنگل بن چُکے ہیں اور جب تک عوام حُکم رانوں کو نعروں، وعدو دعووں کے پراپیگنڈے کے تحت منتخب کرتے رہیں گے، یہی حال رہے گا۔
’’خود نوشت‘‘ میں ذوالفقار چیمہ کی کہانی خُود اُن کی زبانی خُوب پڑھی اور پسند کی جارہی ہے۔ دُعاہے،اے کاش! ہمارا ہر پولیس افسر ایساہی رول ماڈل بن جائے، تو عوام کے بھاگ سنور جائیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں خوش جمال کے جلووں کے ساتھ ایڈیٹر صاحبہ کا قلم بھی جوبن پر تھا، اُس پر مبارک صدیقی کی غزل کا تڑکا، گویا سونے پر سہاگا۔ ’’انٹرویو ‘‘میں محمد ارسلان فیاض ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر سے بات چیت کررہے تھے، جن کا کہنا تھا کہ ’’پی ٹی آئی نے سیاست میں گالی گلوچ کے کلچر کو فروغ دیا۔‘‘
بلاشبہ یہ تو اتنے بےباک ہیں کہ مسجد نبویؐ میں بھی اپنے مخالفین کو گالم گلوچ سے ہراساں کرتے ہیں۔ ہمارا مشورہ ہے کہ حکومت ہر یونی ورسٹی میں ایک شعبۂ اخلاقیات قائم کرے اور سیاست میں آنے والے ہرشخص کے لیے اُس کی ڈگری لازم کردے۔ نئی کتابوں پر اختر سعیدی حسب معمول ماہرانہ تبصرہ کررہے تھے۔’’ڈائجسٹ‘‘ کا صفحہ بھی عُمدگی سے مرتب ہوا اور ہمارے صفحے پر ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز طوبیٰ زینب مغل نے حاصل کیا، بہت مبارک ہو ۔ (شہزادہ بشیرمحمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: دُعا ضرور کریں، مگر ہتھ تھوڑا ہولا رکھ لیں کہ ہر پولیس افسر ہی ’’رول ماڈل‘‘ بن گیا، تو پھر دنیا جنّت نہیں بن جائے گی۔
* سبز گبند سے مرصّع، میگزین کا سرِورق گویا کہہ رہا تھا ؎ چاہتے ہو تم اگر، نِکھرا ہوا فردا کا رنگ…سارے عالم پر چھڑک دو، گنبدِ خضرا کا رنگ۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمد ثانی، معلمِ اخلاق، محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و رفعت اپنے منفرد انداز میں بیان کر رہے تھے۔
معروف خطاط واصل شاہدکا ’’انٹرویو‘‘ بےحد پسند آیا اور یہ بات دل کو لگی کہ’’جس معاشرے میں ڈھائی کروڑ بچّے اسکول سے باہر ہوں، معاشرے میں علمی رویے ہی نہ ہوں، وہاں فن وتخلیق کی بات عجیب ہی محسوس ہوتی ہے۔‘‘ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے تینوں واقعات ہی اچھے لگے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ ایڈیٹنگ میں ثانی نہیں رکھتیں،ای میل کچھ زیادہ ہی طویل کردی ہے۔سو، اگلی ای میل تک اجازت۔ (قدسیہ حسن)
ج: یوں تو آپ لوگوں کو ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘کا حجم دیکھتے ہوئے خُود ہی اِس بات کاخیال رکھنا چاہیے تاکہ ناحق اضافی محنت سے بھی بچ سکیں۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو پھر مجبوراً ہمیں اپنی ’’قینچی‘‘ چلانی پڑتی ہے۔
* شمارے میں سب سے پہلے ’’عُمر خیام‘‘ کی آخری قسط پڑھی۔ "کتاب گاڑی" پہ مضمون پڑھ کے بہت ہی خوشی ہوئی کہ غریب بچّوں کے لیے کتنا امید افزا کام ہورہا ہے۔ ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات بھیگی بھیگی، سوندھی سوندھی برکھا رُت سےمعطّرملے۔ حسبِ معمول شعری انتخاب بہت اعلیٰ تھا۔
خاص طور پر یہ مصرع تو دل لے گیا ؎ جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی، تم یاد آئی۔ ڈاکٹر معین واٹس ایپ پر شان دار مضمون لے کے آئے کہ میرا بھی اپنے گھر والوں سے رابطے کا یہی ذریعہ ہے۔ اےکاش! میرا اپنے اسکول کی سہیلیوں سے بھی رابطہ ہوجائے۔ ’’پیارا گھر‘‘ہمیشہ کی طرح بصد شوق پڑھا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ کا کرارا جواب پڑھ کے مزہ آگیا۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)
ج: ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ والے بہت ہی پیچھے رہ گئے ہیں۔ لگتا ہے، کالم کی سائز اب بڑھانا ہی پڑے گا۔
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk