اقوام متحدہ (تجزیہ : عظیم ایم میاں) بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں نیویارک آنے والا وفد اقوام متحدہ میں آج ( 2؍جون) سے اپنی ملاقاتوں اور سرگرمیوں کا آغاز کرےگا، وفد سلامتی کونسل کے5 مستقل اراکین سمیت کونسل کے 14رکن ممالک کے سفیروں سے ملاقات کریگا۔ بلاول بھٹو اور شیری رحمن پہلے ہی نیویارک پہنچ چکے ہیں جبکہ وفد کے بقیہ اراکین مختلف پروازوں سے نیویارک پہنچ رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے بطور نوجوان وزیرخارجہ نہ صرف دنیا کے مختلف نوجوان وزرائے خارجہ سے موثر رابطے قائم کرچکے ہیں بلکہ اقوام متحدہ میں بھی ایک نوجوان اور عالمی امور میں بہتر دلچسپی رکھنے کے حوالے سے اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں البتہ بلاول بھٹو کی قیادت میں آنے والے وفد میں شامل سابق وزیر خارجہ عباس جیلانی، حنا ربانی کھر، شیری رحمن، مصدق ملک جیسے تجربہ کار افراد کی شمولیت کے باعث بعض حلقے یہ سوال کررہے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری وفد کے سربراہ کے طور پر پاکستان کے موقف کی ترجمانی کریں گے لیکن وفد میں شامل ان تجربہ کار سفارت کاروں اور افراد کا کیا رول ہوگا اور وہ باہمی مشاورت کے علاوہ سفارتکاری اور ترجمانی کیلئے کیا رول ادا کریں گے؟ تفصیلات کے مطابق پاک بھارت 4؍ روزہ غیر اعلانیہ جنگ کے بارے میں پاکستان کے موقف سے دنیا کوآگاہی دینے کے لئے نیویارک اور واشنگٹن کا دورہ کرنے والا یہ پاکستانی وفد آج (پیر 2؍ جون) سے اقوام متحدہ میں ملاقاتوں سے آغاز کرے گا۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ اقوام متحدہ کی 15؍ رکنی سلامتی کونسل کے بقیہ 14؍ رکن ممالک کے سفیروں سے ملاقاتیں کرے گا جن میں امریکا، روس، برطانیہ، فرانس اور چین کے سفیر بھی شامل ہیں یہ پانچوں ممالک سیکورٹی کونسل کے مستقل اراکین ہیں۔ اس سال پاکستان بھی سیکورٹی کونسل کا غیر مستقل رکن ہے۔ بعض حلقے یہ سوال بھی اٹھارہے ہیں کہ پاکستانی وفد کی ملاقاتوں کا بیشتر حصہ ان ممالک کے سفارتکاروں سے ملاقاتیں ہیں جو پہلے ہی پاکستانی موقف کے قائل اور دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے تابزہ بیان کے باوجود ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستانی وفد کی ٹرمپ انتظامیہ کے کن عہدیداروں سے ملاقاتیں ہونگی۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور پاکستانی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری امریکاکے ممتاز کورنیل کلب سے بھی خطاب کریں گے۔ اس تقریب کا اہتمام اوورسیز پاکستانی سوسائٹیز کے سربراہ عمران اگرا نے کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور وفدکے اعزاز میں 3؍ جون کو کورنیل کلب میں ایک استقبالیہ دیا جائے گا جس میں فارن پالیسی کونسل اور دیگر امریکی شخصیات بھی شرکت کریں گی۔وفد واشنگٹن روانہ ہوجائے گا۔ واشنگٹن کے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستانی اور بھارتی وفود کی واشنگٹن میں موجودگی پر دونوں ممالک سے محتاظ انداز میں رابطہ قائم کرنے اور کسی بریک تھرو کے لئے کوشش کررہاہے۔ بہرحال ششی تھرور کی واشنگٹن میں موجودگی اور بھارتی سیکریٹری خارجہ کی قیادت میں دوسرا بھارتی وفد بھی واشنگٹن میں اپنی ملاقاتوں کے مر احل طے کرچکا ہے لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی وفود ٹرمپ انتظامیہ کی ان پس پردہ کوششوں پر کس ر دعمل کا اظہار کرتے ہیں اور کیا صورتحال بنتی ہے۔ امریکا کے پالیسی سازٹرمپ کی اس پالیسی کابھی خیال کررہے ہیں کہ امریکا بھارت پر دباؤ کے ذریعے اپنی ٹیرف پالیسی اور دیگر امریکی مفادات کے حصول میں کامیابی حاصل کرتاہے۔