نیویارک (تجزیہ، عظیم ایم میاں) فیلڈ مارشل عاصم منیر کو امریکی فوج کے 250؍ ویں یوم تاسیس کی تقریبات میں مدعو کئے جانے پر دوستوں میں جستجو اور دشمنوں میں پریشانی اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔بالخصوص بھارتی میڈیا اور پاکستان مخالف لابی نہ صرف سرگرم ہے بلکہ پاکستانی فوج کے سربراہ کو مدعو کئے جانے پر صدر ٹرمپ پر بھی ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر 7؍ جون تا 14؍ جون تک جاری رہنے والی تقریبات کے آخری روز کی تقریبات میں شرکت کریں گے ان کی ملاقاتوں اور دیگر رابطوں اور مصروفیات کی تفصیلات کا کوئی شیڈول سامنے نہیں۔
پاکستان پر بھارت کی جانب سے دہشت گردی کے الزامات، پروپیگنڈہ اور چار روزہ پاک بھارت جنگ کے اثرات کے ہجوم میں امریکی فوج کی سنٹرل کمان کے سربراہ جنرل مائیک ایرک کوریلا نے پاکستانی فوج کے سربراہ کے امریکا پہنچنے سے قبل ہی امریکی کانگریس کے سامنے اپنے تفصیلی بیان اور سوال و جواب پر مبنی سماعت کے دوران انتہائی واضح الفاظ میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جدوجہد اور امریکا سے تعاون کو شاندار اور انسداد دہشت گردی کے لئے مثبت اور مفیدکردار کی تعریف کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ امریکا پاکستان اور بھارت دونوں سے تعلقات رکھے گا۔
ظاہر ہے امریکی فوج کی سنٹرل کمان اور پنٹاگان کا دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان کو امریکا کا اہم شراکت دار قراردینا بھارت کے لئے چار روزہ جنگ کے اثرات کے تناظر میں ایک ناپسندیدہ شگون ہے جبکہ صدر ٹرمپ تنازع کشمیر پر ثالثی کی غیر عملی اور زبانی پیشکش اور پاک بھارت جنگ بندی کرانے کا کریڈٹ 9؍ مرتبہ سے زائد کرکے نریندر مودی کو پریشان کرچکے ہیں۔
لہٰذا صدر ٹرمپ کی انتظامیہ بالخصوص پنٹاگان پاکستان کی انسداد دہشت گردی کے لئے قربانیوں اور امریکا سے شراکت کا سرٹیفکیٹ دیکر عملاً بھارت کے الزامات کی بالواسطہ تردید کرچکا ہے۔ پاک امریکا تعلقات کی تاریخ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پنٹاگان پاکستان سے قریبی اور تعاون کی حکمت عملی پر کام کرتا رہا ہے اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی خارجہ پالیسی میں بسا اوقات اختلاف بھی دیکھا گیا ہے۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ امریکا میں پاکستان مخالف اور بھارت نواز لابی نہ صرف پریشان اور قیاس آرائیوں میں مشغول ہے اور پاکستان کی داخلی سیاست کے کردار پی ٹی آئی امریکا کی جانب سے 14؍ جون کو واشنگٹن میں احتجاجی مظاہروں کی تیاری کو خوب ہوا دے رہی ہے بلکہ بھارتی میڈیا اس کو خوب ہوا دے رہا ہے۔
امریکا میں بعض پاکستانی حلقے حالیہ پاک بھارت جنگ کے تناظر میں بھارتی میڈیا پر پی ٹی آئی کی اس کوریج اور حکمت عملی پر ناپسندیدگی کا اظہار کررہے ہیں اور اسے بانی پی ٹی آئی کے لئے ہمدردی کی بجائے اپنی پارٹی کے بانی کیلئے ایک منفی اقدام قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان کے ازلی مخالف افغان نژاد امریکی ری پبلکن اور افغانستان اور عراق میں ری پبلکن دور صدارت میں امریکا کے سفیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کرنے والے زلمے خلیل زاد نے بھی حقیقی صورتحال اور پاک امریکا تعلقات کی تازہ کیفیت پر تبصرہ کرتے ہوئے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے دورہ واشنگٹن کو ری پبلکن صدر نکسن کے اس دور کا ذکر کیا ہے کہ جب امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو چین سے رابطے کروانے اور خاموشی کے ساتھ پی آئی اے کے ذریعے چین لانے اور واپس پاکستان لانے کا خاموش کردار انجام دے کر دنیا کو حیران اور چین امریکا میں ڈائیلاگ قائم کردیا تھا۔
اس کے علاوہ زلمے خلیل زاد نے پاکستان مخالف جذبات کا اظہار کرتے ہوئے امریکا کی جانب سے پاکستانی فوج کے سربراہ سے دہشت گردی کے خلاف بھارتی مطالبات کے ازالہ کے مطالبے پر دباؤ کا ذکر کرکے سنٹرل کمان کے امریکی سربراہ کے بیان کردہ حقائق اور پاکستان کے مفید کردار کی نفی کی ہے۔
بھارتی لابی اور بھارتی میڈیا کو ایک اعتراض یہ ہے کہ جس پاکستانی فوجی قائد نے بھارت کے خلاف جنگ لڑی ہے اور جس ملک پر بھارت جج اور جیوری بن کر دہشت گردی کے الزامات لگاتا رہا ہے، ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت کے اس پاکستان مخالف موقف کی پرواہ کئے بغیر پاک فوج کے سربراہ کو امریکی فوج کی 250؍ ویں یوم تاسیس کی تقریبات میں مدعو کرلیا ہے۔
امریکی سنٹرل کمان کے سربراہ جنرل کوئیلار اور دیگر امریکی فوجی قیادت نے امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹیوں کے سامنے اپنے بیانات میں پاکستان کو انسداد دہشت گردی میں نہ صرف امریکا کا اہم شراکت دار قرار دیدیا ہے بلکہ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھی تعلقات رکھنے کی حکمت عملی رکھتے ہیں گویا ایک بار پھر جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مساوات کی وہ پرانی حکمت عملی کا اشارہ دیدیا ہے اور بھارت کو علاقے کا واحد علاقائی چوہدری تسلیم کرنے کا رجحان ترک کیا جارہا ہے۔
بھارت نے پاکستان اور چین کے درمیان تعاون اور قربت کو امریکا کے ری پبلکن حلقوں میں اسے جو چین دوست اور امریکا مخالف امیج ابھارنے کی کوشش کی ہے وہ کارگر ثابت نہیں ہوئی بلکہ بقول زلمے خلیل زادامریکا پاکستان کو ایک بار پھر چین سے ڈائیلاگ، رابطوں اور دیگر مفادات اور مقاصد کے لئے تعاون کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر 7؍ جون تا 14؍ جون تک جاری رہنے والی تقریبات کے آخری روز کی تقریبات میں شرکت کریں گے ان کی ملاقاتوں اور دیگر رابطوں اور مصروفیات کی تفصیلات کا کوئی شیڈول سامنے نہیں آیا حالانکہ پی ٹی آئی امریکا کے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ انہیں فوج کے سربراہ کی واشنگٹن آمد کا علم چند روز پہلے ہی بعض اندرونی حلقوں سے مل چکا تھا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا پاکستان ماضی کی طرح امریکا اور چین کے درمیان تعلقات اور مفادات کے رابطوں میں تھرڈ پارٹی کے طور پر استعمال ہوجاتا ہے یا پھر اپنے اس مرتبہ اپنے قومی دفاع، معیشت اور دیگر مفادات کے لئے بھی کچھ حاصل کرتا ہے۔
چین اور امریکا کے درمیان ٹیرف اور دیگر معاملات پر اب بھی نہ صرف رابطے ہیں بلکہ کچھ اہم معاملات طے ہونے کی اطلاعات بھی گردش کرنے لگی۔ پاکستان کو چین سے قربت اور امریکا سے دوستانہ تعلقات کے توازن کو قائم کرنے میں کتنی کامیاب ہوتی ہے یہ پاکستان کی موجودہ قیادت کے لئے ایک نادر موقع اور ایک چیلنج بھی ہے جس کے لئے دانش مندانہ اور جرات مندانہ پاکستانی فیصلوں اور اقدامات کے لئے مستقبل کا مورخ منتظر ہے۔