اسلام آباد ہائی کورٹ میں جیل میں قیدیوں کی حالت زار سےمتعلق کیس کی سماعت کےدوران چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ جب تک کسی ملزم کا جرم ثابت کرکے اسے سزا نہ سنا دی جائے وہ معصوم تصور ہوتا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے جیل میں قیدیوں کی حالتِ زار سے متعلق کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں کی جبکہ وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری بھی عدالت میں پیش ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیئے: ’صدر رولز کیخلاف کچھ بھی کرسکتے ہیں کے دلائل نہ دیں‘
اس موقع پر چیف جسٹس نے وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ شیریں مزاری صاحبہ آپ خود آئی ہیں، آپ کو تو بلایا نہیں تھا؟
شیریں مزاری نے انہیں جواب دیا کہ میں حتمی رپورٹ خود عدالت میں جمع کرانا چاہتی ہوں، جیلوں کی حالت اس وقت تک بہتر نہیں ہو گی جب تک انڈر ٹرائل قیدیوں کا مسئلہ حل نہ ہو گا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ کے پی میں 70 فیصد، پنجاب میں 60 فیصد اور بلوچستان میں 55 فیصد قیدی ملزمان ہیں، سزا یافتہ نہیں۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ جب تک کسی ملزم کا جرم ثابت کر کے اسے سزا نہ سنا دی جائے وہ معصوم تصور ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیئے: اینکر پرسنز نے وثوق سے کہا ڈیل ہوگئی، جسٹس اطہر
شیریں مزاری نے جواب دیا کہ جوڈیشل پروسیڈنگز میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ہیومن رائٹس کا پہلا اصول یہ ہے کہ جیلوں میں ملزمان کو سزا یافتہ مجرموں سے الگ رکھا جائے، مگر گرفتاری کے اختیار کو غیر ضروری طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ ٹھوس شواہد کے بغیر کسی کو بھی فوری گرفتار کرنا اختیار کا غلط استعمال ہے، زیرِ سماعت مقدمات میں بہت سےملزمان ایسے ہوں گے جو ضمانت ملنے پر بھاگیں گے نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انویسٹی گیشن افسران کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے، انویسٹی گیشن افسر یا تو تربیت یافتہ نہیں یا انہیں قانون کا ہی علم نہیں۔
انہو ں نے یہ بھی کہا کہ غیر ضروری گرفتاریوں سے جیل میں قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، جس سےانسانی حقوق کے مسائل سامنے آتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیئے: جسٹس اطہر من اللّٰہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ مقرر
وفاقی وزیر نے انہیں بتایا کہ جیلوں میں معذور قیدیوں کے لیے ریمپ اور ٹوائلٹ تک کی سہولت موجود نہیں، خواجہ سراؤں کے لیے الگ سیل بنانے کی بھی سفارش کی ہے۔
انہو ں نے بتایا کہ جیلوں میں انڈسٹریز کی بحالی کا کام بھی ہو رہا ہے، کام کرنے والے قیدیوں کو اجرت نہیں دی جاتی صرف ان کی سزا کی مدت میں کمی کی جاتی ہے۔
عدالتِ عالیہ نے کیس کی مزید سماعت 15 فروری تک ملتوی کر دی۔