• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا ایک کمیونسٹ دوست فلاحی کاموں کے بہت خلاف ہے، وہ کہتا ہے کہ اگر بھوکے کو روٹی مل گئی اور اس کی دوسری چھوٹی موٹی ضروریات پوری ہونے لگیں تو اس کے نتیجے میں موجودہ ظالمانہ نظام برقرار رہے گا۔ بھوکے لوگ، عام ضروریات کے لئے ترسے ہوئے عوام ہی ایک دن انقلاب برپا کیا کرتے ہیں ۔ چنانچہ میرا یہ دوست وسیع پیمانے پر سامراج کی اس سازش کا راستہ روکنے کی پوزیشن میں تو نہیں ہے چنانچہ وہ ذاتی حیثیت میں عوام میں اضطراب، بے چینی اور بھوک ننگ وغیرہ کی صورتحال برقرار رکھنے کےلئے ہر وہ اقدام اٹھاتا ہے جو اس کے بس میں ہو ، چنانچہ وہ اپنے ملازمین کو کم سے کم تنخواہ پر ملازم رکھتا ہے اور پھر ایک دن بغیر نوٹس دیے ملازمت سے فارغ کر دیتا ہے ان کو سامنے بٹھا کر مرغن کھانے کھاتا ہے اور ضرورت سے زیادہ چسکےلیتادکھائی دیتا ہے ان کے ہاتھ میں پانچ پانچ ہزار روپے کی گڈیاں دے کر انہیں گننے کےلئے کہتا ہے ان کو ساتھ لے جا کر اپنے لئے مہنگی شاپنگ کرتا ہے، اسے یقین ہے کہ اگر عوام دوست انقلاب کےلئے دوسرے لوگ بھی اس مہم میں اس کاساتھ دیں اور اپنے اپنے زیر اثر حلقہ میں عوام کو بیروزگار کرنے ، انہیں بھوکوں مارنے، انہیں تعلیم سے محروم رکھنے اور انہیں جانوروں کی طرح رکھنے کی تحریک میں اس کا ساتھ دیں تو چند برسوں ہی میں انقلاب ہمارے دروازوں پر دستک دے گا ۔

مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کو ن سنتا ہے۔چنانچہ ہمارے ہاں الٹا کچھ برسوں سے درد دل رکھنے والے ہزاروں افراد میدان عمل میں کود چکے ہیں چنانچہ کوئی سفید پوش لوگوں کو ہر ماہ راشن ان کے گھروں تک پہنچاتا ہے کوئی غریب بچیوں کےلئے جہیز تیار کرواتا ہے ۔کچھ لوگ پکے پکائے کھانے یتیم خانوں اور دوسرے مستحق افراد میں تقسیم کرتے ہیں کئی لوگ لاکھوں اور کروڑوں روپے فلاحی تنظیموں کو عطیہ دیتے ہیں بہت سے دوستوں نے ہسپتال بنائے ہیں جہاں مہنگے سے مہنگا علاج مفت کیا جا رہا ہے کچھ دوست کالج اور یونیورسٹیاں بنا رہے ہیں اور ایک پیسہ بھی فیس وصول نہیں کرتے، میرے دوست لیفٹیننٹ (ر) مقبول (بٹ) نےبھی اس عوام دشمن مہم کو تیز تر کرنے کے لئے ایک اسکول بنایا ہے جس میں غریبوں کے بچوں کو تعلیم، کتابیں اور یونیفارم تک بلا معاوضہ مہیا کئے جاتے ہیں، اس اسکول کا معیار ان اسکولوں سےبھی کئی درجے زیادہ ہے، جہاں لاکھوں روپے صرف فیس کی مد میں وصول کئے جاتے ہیں کراچی میں صدیق صاحب، جنہیں لوگ بادشاہ بھی کہتے ہیں ایسے شاندار منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جس سے ’’عوامی انقلاب‘‘مزید لیٹ ہو جائے گا، ایدھی ٹرسٹ والے برس ہا برس سے اس ’’عوام دشمن‘‘ ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں علاوہ ازیں اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوںاہلِ دل پورے پاکستان میں فلاحی اداروں کا جال بچھائے ہوئے ہیں اور آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ان میں سے ایک بھی ان فلاحی کاموں کو سیڑھی بنا کر اقتدار میں آنے کا ارادہ نہیں رکھتا!

اور اب ’’زبان پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا‘‘ یعنی ڈاکٹر امجد ثاقب، جو برس ہا برس سے پاگل پن کی حد تک غریب عوام کے دکھ درد کم سے کم کرنے میں مشغول ہیں ۔ڈاکٹر صاحب کاروبار، مکانات کی تعمیر اور اس نوع کے دوسرے کاموں کے لئے ابھی تک کروڑوں روپوں سے بڑھ کر اربوں روپے بغیر سود قرض دے چکے ہیں اور حال ہی میں ان کا ایک عظیم کارنامہ دیکھ کر میں انگشت بدنداں رہ گیا ۔قصور میں انہوں نے یونیورسٹی قائم کی ہے جس کی ’’زیارت‘‘ کا مجھے موقع ملا یہ یونیورسٹی تیار ہے ،حسن و جمال کا ایک شہکار ہے اس کی محرابیں اس کے درو دیوار دیکھ کر میں تو مبہوت رہ گیا مگر یہ تو اس یونیورسٹی کے ظاہری حسن کا بیان ہے اس کے باطنی حسن کا عالم یہ ہے کہ اس میں پاکستان کےسارے صوبوں اور دوسرے علاقوں کے طالب علموں سے ایک دھیلا بھی وصول نہیں کیا جاتا اور انہیں تعلیم، یونیفارم اور کتابیں تک مفت فراہم کی جاتی ہیں اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کے قائم کردہ رفاہی ادارے ’’اخوت‘‘ کے زیر اہتمام اخوت کالج، یونیورسٹی کے علاوہ اخوت کالج فیصل آباد، اخوت کالج برائے خواتین چکوال، اخوت این جے وی اسکول کراچی بھی قائم کئے جا چکے ہیں اخوت کالج یونیورسٹی میں چاروں صوبوں کے علاوہ گلگت بلتستان آزاد کشمیر اور چار مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد بچے ، بچیاں زیر تعلیم ہیں ۔48اضلاع سے تعلق رکھنے والے یہ بچے بارہ زبانیں بولتے ہیں اب تک چھ سو سےزائد طلبہ اخوت یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی ان خدمات کے اعتراف میں انہیں متعدد قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ مل چکے ہیں اور حال ہی میں انہیں ’’ریمون میگ سائے ‘‘ ایوارڈ سے نوازا گیا جسے ایشیائی نوبل پرائز کہا جاتا ہے !

کبھی موقع ملا تو میں ’’اخوت‘‘ کے ان دوسرے بیسیوں فلاحی منصوبوں کے بارے میں بھی بتائوں گا جن کی صرف تفصیل سن کر میرا دماغ گھوم جاتا ہے، میں اس فرشتہ سیرت شخص جسے ڈاکٹر امجد ثاقب کہتے ہیں ’’بابا جی ‘‘ کا درجہ دیتا ہوں جو ہر برے وقت میں میرے خواب میں آکر مجھے حوصلہ دیتے ہیں۔ اللہ آپ کا فیضان ہمیشہ اسی طرح جاری رکھے میرے خوابوں کے بابا جی !

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین