اسلام آباد(ایجنسیاں)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس مجبوری میں جاتے ہیں اور ان کی شرائط ماننے کے لیے عوام پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے‘جب شرائط مانتے ہیں تو کہیں نہ کہیں سکیورٹی کمپرومائز ہوتی ہے ‘معیشت کمزور ہو گی تو دفاع بھی کمزور ہو گا‘ہماری مسلح افواج ہمارا فخر ہیں‘ جس طرح سکیورٹی فورسز نے ہمیں محفوظ رکھا اس پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
دہشتگردی کےخلاف جنگ میں ہماری فورسز نے پاکستان کو محفوظ کیا‘کوشش ہے عوام اور ریاست ایک راستے پر چلیں‘ماضی میں ملک کو معاشی طور پر مستحکم نہیں کیا گیا، قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی بھی ملک خوشحال نہیں ہو سکتا‘جب عوام ملک بچانے کیلئے اسٹیک ہولڈر بن جائیں تو یہ سب سے بڑی نیشنل سکیورٹی ہوتی ہے۔
ہماری قومی سلامتی پالیسی کثیر الجہتی ہے‘ متفقہ دستاویز کی تشکیل میں درپیش چیلنجز کو مد نظر رکھا گیا ہے‘قومی سلامتی کے لیے ہمہ جہت ترقی ناگزیر ہے‘ہماری کوشش معیشت کا استحکام اور معاشرے کے نچلے طبقوں کو اوپر اٹھانا ہے۔
وہ جمعہ کو یہاں وزیراعظم آفس میں نیشنل سکیورٹی پالیسی کے پبلک ورژن کے اجراء کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ تقریب میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر‘وفاقی کابینہ کے ارکان‘ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، مسلح افواج کے سربراہان ‘ سفارتکار اور اعلیٰ فوجی حکام بھی موجود تھے۔
قبل ازیں وزیراعظم نے قومی سلامتی پالیسی کی تاریخی دستاویز پر دستخط بھی کیے،وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ قومی سلامتی کے لیے ہمہ جہت ترقی ناگزیر ہے، ہمہ جہت ترقی کا مطلب صرف غریب عوام کی نہیں بلکہ نظرانداز شدہ اور کم ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی بھی ہے‘قومی سلامتی پالیسی درست سمت کا تعین بھی کرے گی اور قومی سلامتی اور استحکام کے حصول کے لیے ایک سمت میں گامزن ہونے کے لیے پوری حکومتی مشینری کی مدد کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہماری مسلح افواج ہمارا فخر ہیں۔ خطے میں درپیش خطرات اور ہائبرڈ وار کے بڑھتے ہوئے چیلنجز کے تناظر میں انہیں ہماری طرف سے بڑی اہمیت اور حمایت حاصل رہے گی ۔
ہماری خارجہ پالیسی کا بڑا مقصد خطے اور خطے سے باہر امن و استحکام رہے گا ، ہماری خارجہ پالیسی میں جاری معاشی خارجہ پالیسی پر مزید توجہ مرکوز کی جائے گی ۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ ملکی سلامتی کا انحصار شہریوں کی سلامتی میں مضمر ہے ، کسی بھی قومی سلامتی پالیسی میں قومی ہم آہنگی اور لوگوں کی خوشحالی کو شامل کیا جانا چاہئے جبکہ بلاامتیاز بنیادی حقوق اور سماجی انصاف کی ضمانت ہونی چاہئے ۔
قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں کارٹل بن گئے۔اگر ہم برآمدات نہیں بڑھائیں گے تو ہمارے پاس دولت کیسے آئے گی، ملک کیسے ترقی کرے گا۔
اس پر ہم نے سٹڈی کی تو پتہ چلا کہ ملکی اداروں کو بیرونی سرمایہ کاروں اور برآمدات کے حوالے سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔پاکستان کو آنے والے وقتوں میں پانی کا بڑا چیلنج درپیش ہوگا۔ اس سے نمٹنے کے لئے ہم دس نئے ڈیم بنا رہے ہیں ۔