اسلام آباد (انصار عباسی) عثمان بزدار کے دورِ حکومت میں سپریم کورٹ کے انیتا تراب کیس کے فیصلے کی ایک نہیں، دو بھی نہیں، تین چار یا درجنوں مرتبہ بھی نہیں بلکہ ہزاروں مرتبہ خلاف ورزی کی گئی لیکن اب تک کسی کو سزا نہیں دی گئی۔
انیتا تراب کیس میں سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمین کو سیاست کا نشانہ بننے سے بچانے کیلئے ان کے عہدوں کی معیاد کو تحفظ فراہم کیا تھا لیکن بزدار حکومت نے اپنے ساڑھے تین سال کی مدت میں سپریم کورٹ کےفیصلے میں وضع کردہ پالیسی کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ریکارڈ تعداد میں افسران کے تبادلے کیے۔
دی نیوز نے پیر کو خبر دی تھی کہ بزدار حکومت کے دوران صوبے میں فیلڈ اور سیکریٹریٹ لیول کے 421؍ اہم عہدوں پر 3؍ ہزار سے زائد افسروں کے تبادلے کیے گئے اور زیادہ تر معاملات میں تحریری طور پر تبادلے کی وجہ تک نہیں بتائی گئی۔
سپریم کورٹ نے انیتا تراب کیس میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کیلئے مندرجہ ذیل رہنما اصول طے کیے تھے تاکہ سویلین بیوروکریسی کو سیاست کا نشانہ بننے سے بچایا جا سکے: ۱) بھرتی، برطرفی اور ترقی کے معاملات پر قانون اور وضع کردہ اصولوں کے مطابق عمل کیا جائے گا، اور جس کیس کے حوالے سے قانون یا اصول موجود نہ ہوں وہاں صوابدیدی فیصلہ ہو سکتا ہے.
اس صوابدیدی اختیار کو منظم، شفاف اور منطقی انداز سے عوام کی فلاح کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ ۲) عہدے کی معیاد، تقرری اور ٹرانسفر کے حوالے سے معاملات میں اگر کسی عہدے کے حوالے سے عمومی طور پر کوئی معیاد طے کی جا چکی ہے تو اس کا احترام کرنا ہوگا اور اس میں ٹھوس وجوہات کے بغیر تبدیلی نہیں کی جا سکتی.
یہ ٹھوس وجوہات تحریری طور پر بیان کرنا ہوں گی اور عدلیہ ان وجوہات پر نظرثانی کر سکتی ہے۔ ۳) غیر قانونی احکامات کے حوالے سے بات کی جائے تو سرکاری ملازمین کا اولین فرض قانون اور آئین کی پاسداری کرنا ہے، وہ اپنے حکام بالا کے ایسے احکامات ماننے کے پابند نہیں جو غیر قانونی ہوں یا پھر طے شدہ روایات، اصولوں یا پھر آئین کے منافی ہوں۔
ایسی صورت میں سرکاری ملازمین کو چاہئے کہ وہ اپنی رائے تحریر کریں اور اگر ضروری ہو تو اختلافی نوٹ لکھیں۔ ۴) کسی بھی افسر کو ٹھوس وجہ بیان کیے بغیر او ایس ڈی نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ وجوہات تحریری طور پر بیان کرنا ہوں گی اور عدلیہ ان پر نظرثانی کر سکتی ہے۔
اگر کسی افسر کو او ایس ڈی لگانا بھی پڑ جائے تو ایسی پوسٹنگ کو کم سے کم مدت کیلئے رکھنا ہوگا اور اگر افسر کیخلاف کوئی انضباطی کارروائی ہو رہی ہو تو ایسی انکوائری کو بھی جلد از جلد مکمل کرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ جانتی ہے کہ مذکورہ بالا معاملات فیصلہ سازی اور ریاست کے انتظامی ڈھانچے سے جڑے ہیں لیکن عدلیہ نے اس ضرورت کو محسوس کیا ہے کہ عہدے کی معیاد، بھرتی، ترقی اور تبادلوں کے حوالے سے فیصلہ سازی خالصتاً اصولوں کی بنیاد پر ہوں اور یہ معاملات بلا روک ٹوک صوابدید کے ماتحت نہ آئیں۔
سپریم کورٹ کی ہدایت کے تحت، فیصلے کی نقول وفاقی سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ، صوبائی چیف سیکریٹریز، کمشنر اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری اور تمام وفاقی و صوبائی سیکریٹریز کو بھیجی گئی تھی تھیں۔ تاہم، متعلقہ حکام نے عموماً سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کو نظرانداز کیا ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے کی دوبارہ خبر نہیں لی۔