• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عظمتِ محرم الحرام (اسلامی تاریخ کے آئینے میں)

مولانا محمد قاسم رفیع

انسانیت کی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے، مگر اس کائنات کا سلسلہ کب سے چلا آرہا ہے، اس راز سے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی واقف نہیں۔ سورج کا طلوع و غروب، چاند کا بڑھنا گھٹنا، موسم کا سرد و گرم ہونا، خزاں سے بہار نکلنا، اندھیرے اجالے کا سفر، شب و روز کی گنتی اور ماہ و سال کا شمار، اس سب کی ابتدا ءکی حقیقت وہی ذات جانتی ہے جو اول بھی ہے اور آخر بھی۔ کائنات کا یہ سفر اسی احکم الحاکمین کے علم و منشا کے تحت تمام ہوگا۔

پھر انسانوں نے اپنی سہولت کے پیش نظر یومیہ تاریخ اور ماہ و سال کی گنتی کا حساب رکھنا شروع کیا تو اس کے لئے دنیا میں پیش آنے والے کسی اہم واقعے کو بنیاد بنایا اور اپنی تاریخ کا آغاز وہاں سے کیا، ہر قوم و ملت نے اپنے وطنی و مذہبی رجحانات، فکری نظریات و خیالات، دینی شعائر و علامات اور تاریخی نشانات سے اپنی تقویم شروع کی اور اسے اپنا کیلنڈر بنایا۔

دین اسلام کی تاریخ جب مرتب ہونا شروع ہوئی تو یہ سوال اٹھا کہ ہم اپنی تقویم کی بنیاد کسی عظیم الشان واقعے کو بنائیں؟ اس موقع پر کئی آراء سامنے آئیں، مگر امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروقؓنے اس رائے کو پسند فرمایا کہ اسلامی تقویم کا سنگ بنیاد ’’ہجرت‘‘ پر ہونا چاہئے، کیونکہ ہجرت ہی وہ واقعہ ہے جس نے مکہ مکرمہ کے مسلمانوں کی محکومیت کو مدینہ طیبہ میں حاکمیت سے بدل دیا تھا۔ چناںچہ آج ۱۴۴۴ھ کا اختتام ہمیں یاد کراتا ہے کہ اسلام کے اس اہم واقعے کو چودہ سوچو الیس سال کا عرصہ گزر گیا اور اب ۱۴۴۵ھ شروع ہونے جا رہاہے۔ سال کے مہینوں کی گنتی کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے، ارشاد الٰہی ہے:’’ مہینوں کی گنتی اللہ تعالیٰ کے ہاں بارہ مہینے ہے، اللہ تعالیٰ کے حکم میں، جس دن اس نے پیدا کیے تھے آسمان اور زمین، ان میں سے چار مہینے ہیں ادب کے، یعنی حرمت و احترام کے۔‘‘ (سورۃالتوبہ:۳۶)

چنانچہ اسلامی سال بارہ مہینوں پر مشتمل ہے، جن کے نام ہر مسلمان کو یاد ہونے چاہئیں، اس غرض سے یہاں لکھے جاتے ہیں: ’’(۱)محرم الحرام، (۲)صفر المظفر، (۳)ربیع الاول، (۴)ربیع الثانی، (۵)جمادی الاولیٰ، (۶)جمادی الاخریٰ، (۷)رجب المرجب، (۸)شعبان المعظم، (۹)رمضان المبارک، (۱۰)شوال المکرم، (۱۱)ذوالقعدہ، (۱۲) ذوالحجہ۔‘‘

مسلمانوں کو اسلامی مہینے یاد ہونا اور اسلامی یومیہ تاریخ سے واقف ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہمارے دین اسلام کی بہت سی عبادات کا انحصار اس پر ہے۔امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو، یعنی عید کرو۔‘‘(مشکوٰۃ المصابیح، ص:۱۷۴، ط:قدیمی)

پس رمضان کے فرض روزوں اور عیدالفطر کا علم چاند کی رئویت سے ہوگا اور رئویت تب ہوگی، جب ہمیں چاند کی تاریخ کا علم ہوگا۔ اسی طرح حج، زکوٰۃ، قربانی وغیرہ عبادات بھی انہی مہینوں کے ساتھ مشروط ہیں۔ چنانچہ علمائے کرام نے اسلامی تقویم کا علم ہونا فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اپنی تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:’’چونکہ احکام شرعیہ کا مدار حساب قمری پر ہے، اس لئے اس کی حفاظت فرض علیٰ الکفایہ ہے۔ پس اگر ساری امت دوسری اصطلاح کو اپنا معمول بنالے جس سے حساب قمری ضائع ہو جائے (تو) سب گناہ گار ہوں گے ،اگر وہ محفوظ رہے (تو) دوسرے حساب کا استعمال مباح ہے، لیکن خلافِ سنت ِ سلف ضرور ہے اور حساب قمری کا برتنا بوجہ اس کے فرض کفایہ ہونے کے لابدّ افضل و احسن ہے۔‘‘

آج کل چونکہ شمسی و عیسوی کیلنڈر کا رواج عام ہے، اس لئے عموماً لوگوں کو چاند کی تاریخ یاد رکھنے کی عادت نہیں رہی، اس کا حکیمانہ حل شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒیوں تجویز فرماتے ہیں:’’اکابر فرماتے تھے کہ چاند کی جو تاریخ ہو، وہی تمہارے پارے کی تلاوت ہو کہ تم سے کوئی پوچھے کہ آج تم نے کون سا پارہ پڑھا ہے؟ تو تم کہو کہ میں نے ۲۲ واں پارہ پڑھا ہے، آج ۲۲ تاریخ ہے۔ اگر ۲۹ کا چاند ہوگیا تو مہینے کے ختم پر آخری دن ایک پارہ اور پڑھ لو، پہلی تاریخ کو پہلا پارہ شروع کرو، اس سے کم درجہ نہیں ہونا چاہئے۔‘‘(اصلاحی مواعظ، ج:۱، ص:۱۸۸)اگر ہم اس نئے اسلامی سال کے پہلے مہینے کی پہلی تاریخ سے روزانہ ایک پارے کی تلاوت کا معمول بنالیں، تو اس طرح ہمیں اسلامی تاریخ یاد رکھنے میں بھی آسانی ہوگی اور قرآن کریم کی تلاوت کا معمول بھی بن جائے گا۔

ماہِ محرم الحرام ہجری تقویم کا پہلا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ کئی حوادث و واقعات کو سموئے ہوئے ایک عظیم تاریخ رکھتا ہے۔ اس کی سب سے پہلی اہمیت یہی ہے کہ یہ اسلامی کیلنڈر کی خشتِ اول ہے، جس طرح عیسوی سن کا آغاز جنوری سے ہوتا ہے، اسی طرح قمری سن محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے۔

محرم الحرام کو اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینوں میں سے قرار دیا ہے، ارشاد الٰہی ہے: ’’مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ‘‘(سورۃالتوبہـ: ۳۶) ’’ان میں سے چار مہینے ہیں ادب کے، یعنی حرم و احترام کے۔ ‘‘یہی وجہ ہے کہ اس کا نام بھی اس معنی و مفہوم پر دلالت کرتا ہے، دیگر تین مہینے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور رجب المرجب ہیں۔ ان محترم مہینوں کا ادب و احترام دورِ ابراہیمی سے چلا آرہا تھا اور کفار و مشرکین بھی ان مہینوں میں قتل و غارت گری سے گریز کرتے تھے، وہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ان مہینوں کی گنتی آگے پیچھے کرلیا کرتے تھے، مثلاً اگر جنگ کے دوران ان چار مہینوں میں سے کوئی مہینہ شروع ہوجاتا تو وہ کہتے تھے کہ اس سال یہ مہینہ چند مہینوں بعد آئے گا۔ 

اس طرح انہوں نے ادب و احترام کو بھی اپنی مرضی کے تابع کر رکھا تھا۔ اسلام نے ان کی اس من مانی پر روک لگائی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایاـ: ’’یہ جو مہینہ ہٹادینا ہے سو بڑھائی ہوئی بات ہے کفر کے عہد میں، گمراہی میں پڑتے ہیں اس سے کافر، حلال کرلیتے ہیں اس مہینے کو ایک برس اور حرام رکھتے ہیں، دوسرے برس تاکہ پوری کرلیں ،گنتی ان مہینوں کی جو اللہ تعالیٰ نے ادب کے لئے رکھے ہیں، پھر حلال کرلیتے ہیں جو مہینہ کہ اللہ نے حرام کیا، بھلے کردیئے گئے ان کی نظر میں ان کے برے کام اور اللہ راستہ نہیں دیتا کافر لوگوں کو۔‘‘ (سورۃالتوبہ:۳۷ترجمہ حضرت شیخ الہندؒ)

فوائد عثمانی میں امامِ مغازی محمد بن اسحاقؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ پہلا شخص جس نے یہ رسم جاری کی، قلمس کنانی تھا، پھر اس کی اولاد در اولادیوں ہی ہوتا چلا آیا، آخر میں اسی کی نسل سے ابو ثمامہ جنارہ بن عوف کنانی کا معمول تھا کہ ہر سال موسم حج میں اعلان کیا کرتا کہ امسال محرم اشہر حرم میں داخل رہے گا یا صفر۔ اسی طرح محرم و صفر میں سے ہر مہینہ کبھی حلال اور کبھی حرام کیا جاتا تھا اور عام طور پر لوگ اسے قبول کرلیتے تھے۔ گویا عہد جاہلیت میں کافروں کے کفر و گمراہی کو بڑھانے والی ایک چیز یہ بھی تھی کہ اللہ کے حلال یا حرام کئے ہوئے مہینے کو بدل ڈالنے کا حق کنانہ کے ایک سردار کو سونپ دیا گیا تھا۔‘‘

آنحضرت ﷺ نے ہجرت کے دسویں سال حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایاـ: ’’بے شک زمانہ گھوم کر اس حالت پر آگیا ہے جو حالت تھی اس دن جس دن پیدا کیا اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو۔‘‘ (متفق علیہ)

اس حدیث مبارک کی شرح میں شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ فرماتے ہیں: ’’یہ اہل جاہلیت نے مہینوں کے سلسلے میں گڑ بڑ مچارکھی تھی، اس لئے پتا نہیں چلتا تھا کہ یہ واقعتاً کون سا مہینہ ہے؟ اور اللہ کی شان یہ کہ جس سال آنحضرت ﷺ حج کے لئے تشریف لے گئے آخری سال، حج تو ذوالحجہ میں ہوتا ہے، اس سال واقعے کے اعتبار سے بھی ذوالحجہ تھا اور جاہلیت کے حساب سے بھی ذوالحجہ تھا۔ اس وقت حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایاـ: ’’زمانہ گھوم کر وہیں آگیا ہے، اس کی چولیں ہلادی گئی تھیں، لیکن اب زمانے کی چول اپنی جگہ بیٹھ گئی، اب قیامت تک اسے کوئی تبدیل نہیں کرسکے گا، چنانچہ جب سے آج تک دوبارہ تبدیل نہیں کیا جاسکا۔ یہ مطلب ہے اس حدیث کا۔‘‘(دروس از:مشارق الانوار، ج:۱، ص:۴۰۴)لہٰذا تب سے آج تک مہینوں کی گنتی درست چلی آرہی ہے، اسی گنتی کے مطابق اب ہم محرم الحرام ۱۴۴۵ ہجری سے نئے اسلامی سال کی ابتدا کر رہے ہیں۔

محرم الحرام کا پہلا عشرہ کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے، دوسرے خلیفۂ راشد امیرالمومنین سیدنا حضرت عمر فاروق ؓجو ہجری سن تقویم کے موجد ہیں ، انہوں نے صحابۂ کرامؓ کے مشورے سے واقعہ ہجرت کو بنیاد بنا کر اسلامی کیلنڈر کو منظم و مرتب فرمایا تھا، آپؓ پر ۲۶؍ ذوالحجہ۲۳ ہجری کو قاتلانہ حملہ ہوا، تین راتیں زخموں کا علاج ہوتا رہا، شہادت کے بلند مرتبے پر فائز ہونے کے بعد یکم محرم ۲۴ہجری کو روضہ اطہر میں آسودئہ خاک ہوئے۔ (بہ حوالہ : البدایۃ والنہایۃ، ج:۷، ص:۱۳۷، ط :دارالفکر بیروت)

اسی مہینے کی دسویں تاریخ کو تاریخِ اسلام کا وہ دلخراش واقعہ پیش آیا ، جس میں آنحضرت ﷺ کے اہل بیت اطہارؓ پر قیامت صغریٰ قائم ہوئی اور آپ کے محبوب نواسے سیّدنا امام حسین ؓ کی قیادت میں کربلا کے مقام پر یزید کی فوج سے جہاد کرتے ہوئے ستر سے زائد مجاہدین نے جاں فروشی و قربانی کا ایسا باب قلم بند کیا جس کی روشنی آج تک افق پر پھیلی سرخی کی مانند جہاد و حریت کا سبق پڑھارہی ہے۔

یوم عاشورا، جو شہدائے کربلا کی یاد سے دنیا بھر میں منایا جاتا ہے، اس کی تاریخی عظمت ہمیشہ سے چلی آرہی ہے، مشہور ہے کہ بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات اس روز ملی تھی، جس کےشکرانے کے طورپر وہ اس دن روزہ رکھا کرتے تھے، آنحضرتﷺ مدینہ طیبہ میں قدم رنجہ فرما ہوئے تو ارشاد فرمایا کہ ہم پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زیادہ حق ہے کہ ہم یہ شکرانہ ادا کریں، چنانچہ آپ نے عاشورا کا روزہ فرض قرار دیا، جب رمضان کے روزوں کی فرضیت نازل ہوئی تو اس کی فرضیت ختم ہوگئی، لیکن فضیلت باقی رہی، چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’عاشورا کے دن کا جو چاہے روزہ رکھے، جو چاہے نہ رکھے۔‘‘ (صحیح مسلم)

پھر آپ ﷺنے اس کی ترغیب میں ارشاد فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے توقع رکھتا ہوں کہ عاشورا کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے اس کے ساتھ نو یا گیارہ محرم کا روزہ ملالیا جائے تو اچھی بات ہے ، تاہم اگر صرف عاشورا ہی کا روزہ رکھے تو بھی کوئی حرج نہیں۔

ہجرت کے ساتویں سال محرم الحرام کے مہینے میں غزوئہ خیبر ہوا، جس میں مسلمانوں کو یہود پر فتح نصیب ہوئی اور سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو فاتح ِخیبر کا لقب ملا، آپ کے ہاتھوں خیبر کا سب سے مشکل قلعہ زیر ہوا، رسول اللہ ﷺ نے آپ کو لشکر کا علَم برد ار ٹھہرایا ، اور زبانِ رسالت سے آپ کے لئے ’’ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے محبوب ‘‘ کا تمغہ عطا ہوا۔ اس کے علاوہ دورِ نبوت کے چند سرایا بھی محرم کے مہینے میں پیش آئے ہیں، جن میں ۳ ہجری میں سریہ ابی سلمہؓ، ۶ ہجری میں سریہ محمد بن مسلمہؓ، ۷ ہجری میں سریہ ابان بن سعید اور ۹ ہجری میں سریہ عیینہ بن حصن الفراریؓ شامل ہیں، ان تمام سرایا میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور اسلام کا پرچم سرزمین ِعرب پر بلند ہوا۔ (بہ حوالہ : عہدِ نبوت کے ماہ و سال)

غرض یہ کہ محرم الحرام کا مہینہ مندرجہ بالا واقعات و حوادث، اعمال و احکام ، اور قربانیوں و شہادتوں کا ایک تاریخی مرقع ہے، جو ہمیں ہمارے شاندار ماضی سے وابستہ رکھتے ہوئے اپنا حال درست کرنے کا موقع دیتا ہے، تاکہ ہم اپنا مستقبل سنوار سکیں۔

اللہ تعالیٰ امت ِ مسلمہ کے لئے اس نئے اسلامی سال کے پہلے مہینے سے خیر و برکت اور فتح و نصرت کے دروازے کھول دے اور ہمیں سال گزشتہ کی کوتاہیوں کامحاسبہ کرنے کی توفیق سے نوازے، اللہ تعالیٰ اس نئے اسلامی سال سے ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ نئے ’’اسلامی سال‘‘ کے موقع پر ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، سال گزشتہ ہم سے جو کوتاہیاں اور خطائیں سرزد ہوئیں آئندہ سال ان سے بچ کر چلنے والا بنائے، ملک و ملت جن خرابیوں کا شکار ہے، ان سے حفاظت فرمائے، ہمارے عوام اور حکمرانوں کو ایک دوسرے کا خیرخواہ بن کر قوم و وطن کی ترقی کے لئے کوششیں کرنے والا بنائے، ہمیں بھی نیکی کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں نیک حکمران نصیب فرمائے جو دین اسلام کی سربلندی کا باعث ثابت ہوں۔(آمین)