• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسیہ عمران

 میں اپنی ایک استاد سے بہت متاثر تھی ۔وہ میری آئیڈیل تھیں۔ میں اُن کو اپنی بہت سی اُلجھنیں ،مسائل بتاتی رہتی تھی ۔ ایک دن وہ مجھے بڑے اصرار سے اپنے گھر لے گئیں۔ میں راستے بھر ان کی خاموشی پر متفکر اس دوستانہ انداز کو جھٹلا نہ سکی ساتھ چلتی چلی گئی۔ گھر کے لاؤنج میں کتب پھیلی ہوئی تھیں۔ ایک طرف پینٹ کلر ،تو دوسری طرف گتے ،اسٹیشنری اور نہ جانے کیا کچھ اور ساتھ ہی بچوں کی بھاگ دوڑ اور شور، کشن بھی ادھر ادھر پڑے ایک الگ ہی ماحول بنا رہے تھے۔

بچے امی امی کہہ کر ان سے لپٹ گئے ۔انھوں نے پرس سے کچھ نکال کر دس گیارہ سالہ بیٹی کو پکڑایا اور ساتھ ہی اشارتاً کچھ سمجھا بھی دیا۔ وہ جہاں سے مجھے اندر لے گئیں وہاں سے پورے گھر کو جانچنے کو ایک نظر کافی تھی باقی جگہیں مرتب تھیں ،پھر بھی داخلہ کے وقت سامنے کا منظر میرے تصورات سے الگ ہی تھا۔ میرے ذہن میں وہ ایک آئیڈیل شخصیت تھیں۔ ان کے گھر اور بچے عام گھروں سے یقیناً مختلف ہو نے چاہییں تھے۔ مجھے لے کر وہ کچن میں آگئیں۔ کھانے والی میز کی کرسی گھسیٹ کر جیسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پنکھا چلا دیا۔خود عبایا اتار کر چولہے کی طرف بڑھ گئیں۔ 

مجھے تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔کچن بھی بکھرا پڑا تھا۔ ٹرے میں چائے کے دو کپ اور کچھ اسنیکس لئے جب وہ سامنے آبیٹھیں تو جیسے مجھے بھی ہوش آیا۔ چائے بننے کے دوران پورا کچن بھی سمٹ چکا تھا۔ وہ مجھے خاموشی سے جانچ رہی تھیں۔ جو دھچکا ان چند لمحوں میں مجھے لگا تھا اس سے سنبھلنا حقیقت میں بہت مشکل تھا۔ میں نے کسی عام لڑکی سے کبھی دوستی نہیں کی تھی۔ میرے چنداساتذہ تھے جن سے میں متاثر تھی۔ یہ معلمہ میری پسندیدہ ترین معلمہ تھیں۔

جو پروقار اور دلکش شخصیت کی مالک ہی نہیں ان کی باتوں میں اثراندازی تھی۔ ہر بات سیدھی دل پر جا لگتی ان سے کوئی بھی بات یا مسئلہ بیان کرنے میں جھجک نہ ہوتی تھی ،پورا کالج ان کا احترام کرتا وہ جیسے مجمع خلائق تھیں۔ میں اکثر اپنی الجھنیں انھیں بتایا کرتی ۔وہ مسئلہ کی تہہ تک پہنچ جاتیں اور غیر محسوس انداز میں اسے رفع کرتیں۔ ایک بات جسے وہ سلجھا نہ پائی تھیں میری پرفیکشنزم تھی۔ آج کالج سے واپسی پر میں اور پر وین ان کے ساتھ تھے۔ یہ وقت غنیمت تھا میں نے اپنی سب الجھنیں کہہ ڈالیں۔ وہ سب خاموشی سے بغیر تبصرہ کیے سنتی رہیں۔ چائے پیتے اندر ایک جنگ سی چھڑی تھی تصوراتی دنیا بری طرح ٹوٹی تھی۔ 

انھوں نے مسکراتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ ا۔ ہم ایک بار پھر اسی راستے سے گزرے جہاں سے اندر داخل ہوئے تھے ۔وہاں نہ تو بچے تھے اور نہ ہی کسی بے ترتیبی کے آثار، سب چیزیں ترتیب میں آچکی تھیں۔ ایک خاتون صفائی کرنے میں مصروف تھیں۔ میں ایک بار پھر بولنے کے قابل نہیں رہی تھی متضاد کیفیات میں خود بھی سمجھ نہ پا رہی تھی۔اب وہ مجھے اپنے بیڈ روم میں لے گئیں۔سادہ سے فرنیچر سے آراستہ پرسکون سا بیڈ روم سکینت سی چھائی ہوئی محسوس ہوئی ۔اب پچھلی طرف کے باغیچے سے بچوں کے شوراور جھگڑنے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ انھوں نے جیسے کان بند کئے ہوئے ہوں۔ بیڈ پر ساتھ بٹھا کر مسکراتے ہوئے بولیں۔

پریشان نہ ہو، ان کے ساتھ ان کی دادی جان اور پھپھو ہیں ۔اب میں تمھیں سب بتاتی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ گھر میں داخلے کے وقت تمہارے اندر آئیڈیل کا پیمانہ بری طرح متاثر ہوا ، پھر جھٹکا تمہیں تب لگا جب بکھرے گھر کو تھوڑی ہی دیر بعد تم نے سمٹا ہوا پایا۔ تم حیران ہو کہ چائے پینے کے دوران جادو کی چھڑی کیسے پھر گئی۔تو بیٹا بات یہ ہے کہ یہ گھر کو دن میں کئی بار الٹا ہونا ہی ہوتا ہے کہ یہ شو روم نہیں آرام کی جگہ ہے، سکون کا مقام، گھر ہی ہوتا ہے۔ اس کے بھی اصول و ضوابط ہیں لیکن دفتر سے قطعاً مختلف کہ اس کی پیدا وار بہت خاص ہے۔یہ بچےجو گھر کے پھول ،اس باغ کی رونق اور اس کی اصل ہیں، ظاہری ٹیپ ٹاپ سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔ چھلانگنا ،پھلاگنا، بکھیرنا، اس عمر کی فطری ضرورت اور قیمتی ترین عمل ہے۔

اتنا قیمتی کہ اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ تکیوں کا اس سے زیادہ قیمتی استعمال کیا ہو سکتا ہے کہ بچے انھیں ادھر ادھر پھینکیں، ہنسیں، کھیلیں، قہقہے لگائیں۔ ان لمحوں سے زندگی کشید کریں۔ عمر کے اس حصے میں یہی فطری تعلیمی عمل ہے۔ دس سال کی عمر خوب کھیل کود کی عمر ہوتی ہے۔ لڑنے جھگڑنے، کھلونے شئیر کرنے، اور پھر دوستی کرنے کے عمل میں جو تربیت ہے، اس کو آج کے دور میں سوشل اسکل کہا جاتا ہے ،جو کسی بھی میدان میں کامیابی کی نمایاں ترین اور اہم ترین مہارت ہے۔اب میں انکی معاشرتی مہارتوں کو نکھارنے، فطری ضروریات کی تکمیل کے لیے وقت نکلتی ہوں ۔ ہفتے میں ایک دن سب کزنز کو اکٹھا کر کے ایک سرگرمی ترتیب دی ہے۔ 

ایک گھنٹہ کھیلنے اور پھر جو کچھ اس ہفتے کے دوران سیکھا وہ ایک دوسرے سےشئیر کرتے ہیں۔ یہ سب میرے کہنے پر نہیں ان کےاندر کا تحرک ہے۔ میں تمھیں ان کی سرگرمیوں کے نمونے دکھاتی ہوں۔ وہ ایک الماری کی طرف بڑھیں۔ اب وہ پینٹنگ، خطاطی، ڈرائینگ، نقشے، اور نہ جانے کیا کچھ مجھے دکھا رہی تھیں، پھر انھوں نے کچھ ڈائیریز دکھائیں، جن میں سب نے اپنی روزانہ کے معمولات لکھے تھے اور یہ بھی لکھا تھاکہ اگلے دن وہ کیا کریں گے ۔بہت معصومانہ اور چھوٹے چھوٹے جملے تھے۔یہ ان کی ادبی زندگی کا آغاز ہے، وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔

رات کو سب ایک ایک کر کے کہانی بھی سناتے ہیں ۔یہ ان کی بات چیت کی مہارت کو بڑھا تے ہیں، جسے دنیا کنگ اسکل کہتی ہے، اس سے پہلے وہ یہاں سے تیاری کرتے ہیں، لاؤنج میں ایک الماری کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا،اس میںہر بچے کے لئے الگ حصہ مختص تھا، اس کا اندازہ ان کے نام کی لگی تختیوں سے ہو رہا تھا۔ ہر ایک کا مختلف انداز ان کے مختص حصے کی ترتیب سے ظاہر تھا۔ 

بچوں کے رسائل و کتابوں کی الماریوں کے ساتھ دو بڑی الماریوں میں شاید ان کی اپنی کتابیں رکھی تھیں۔ نیچے کی قطار میں کتب کے عنوانات اوپر نیچے اور کچھ الٹی سیدھی رکھی تھیں۔ مسکراتے ہوئے وضاحت کرنے لگیں۔ چھوٹی فاطمہ ابھی پڑھ نہیں سکتی تو اپنے حساب سے ترتیب دیتی رہتی ہے اور یہ اس وقت سے کررہی ہے، جب اُس سے کتابیں اٹھائی بھی نہیں جاتی تھیں۔ اب میں ایک الگ ہی کیفیت میں تھی۔جہاں ذہنی تغیرات نے مجھے تھکایا تھا وہاں عجیب تازگی بھی مل رہی تھی۔

موبائل پر امی کی کال سے میں جیسےہوش میں آئی، وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا تھا ۔امی دیر ہو جانے پر پریشان ہو گئی تھیں۔ انھوں نے میرے لئےرکشے والے کو فون کیا اور گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بولیں ۔ایک بجے تک کا وقت سرگرمیوں کا ہوتا ہے۔ میں انھیں بالکل نہیں روکتی ۔اس جگہ کی سیٹنگ بھی سب نے اپنے حساب سے کی ہے۔

اس کو ’’گوشہ سرگرمی ‘‘کا نام بھی بچوں نے دیا ہے ۔ظہر سے پہلے سب اپنی چیزیں سمیٹ لیتے ہیں۔ میں کچن اور ماسی گھر میں جھاڑو پونچھا کرتی ہے۔بچے نماز دادی جان کے کمرے میں پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد پچھلے حصے میں چھوٹا سا باغیچہ ہے ،بچّوں نے اپنی اپنی کیاریاں بنائی ہیں۔ ہم سب دن کا ایک حصہ ان پودوں کے ساتھ بھی گزارتے ہیں۔ عصر کی نماز سے مغرب تک چہل قدمی کا وقت ہے۔

میں اللہ کا شکرادا کرتی ہوں اور مجھے ان لوگوں کا خیال آتا ہے جو ایک دو کمروں کے گھروں میں رہتے ہیں۔ کتنی مشکل ہوتی ہو گی سب کچھ منظم کرنے میں کہ یہ مشکل ترین کام ہے۔ پریشان نہ ہو ایک وقت تھا میری سوچ بھی تم سے قطعاً مختلف نہ تھی۔ مجھے بھی ہر چیز مکمل چاہیے تھی۔میرے بھی خاص پیمانے تھے۔ تب اللہ نے ایک مربی عطا کیں۔ جنھوں نے گھر کے بارے میں بتایا کہ اصل میں گھر کیسا ہوتا ہے۔

اس کا مقصد بتایا کہ اس ادارے میں سب سے اہم کیا ہے۔ اول ترجیع کس کو بنایا جائے اور یہ بھی سکھایا کہ ایک نظر یا چند ملاقاتوں میں کبھی کسی کے بارے میں رائے قائم نہ کی جائے، کیوں کہ لمحے لمحے میں فرق ہوتا ہے۔اسی سے اندازہ لگاؤ کہ اس وقت کی ترتیب سے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ آدھا گھنٹہ پہلے یہاں کیسا طوفان بپا تھا۔

اس لیے اللہ پاک نے بہت زیادہ گمان کرنے سے منع کیا ہے بعض گمان گنا ہ ہوتے ہیں ،جو ہماری نیکیاں کھا جا تے ہیں۔ دل کے اندر بغض اور کینہ جیسی بیماریوں کو راہ دیتے ہیں۔ رکشے کی آواز پر میں انھیں خدا حافظ کہتے باہر نکل آئی۔ اس ایک گھنٹے کی گفتگو نے میری سوچ بدل دی۔ ان کی حکمت پر انگشت بداں تھی ۔آج وین میں بیٹھتے ہی میں نے انھیں اپنی بھابھی کے متعلق بتایا تھا ۔میں جیسے اندر سے بھری ہوئی تھی۔ وہ خاموشی سے سنتی رہی تھیں۔ اپنے بھائی کی قسمت پر بھی افسردگی دکھائی تھی۔ نہ جانے بدنظمی میں کیسے گزارا کرتے ہیں اور دوسری طرف بچوں کی اچھل کود کو بدتمیزی میں شمار کیا تھا۔

انھیں شاید اسی لمحے کا انتظار تھا۔ جب میں ان کے سامنے ایسی الجھنوں کا خود تذکرہ کروں ۔ وہ مسئلے کی جڑ کو پکڑیں اور خود ساختہ دنیا سے باہر نکالیں۔اور عمل سے بتایا کہ یہ آئیڈیل وغیرہ اکثر کچھ نہیں ہوتا نظروں کا دھوکا ہوتا ہے۔ سب گھر اصل میں ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ کہیں بھرم رہ جاتا ہے۔ تو کہیں سب کیےکرائےپر پانی پھر جاتا ہے۔ یہ انسانوں کی دنیا ہے۔تکمیل کا سوچنا بے وقوفی ہی نہیں ایک بیماری بھی ہے ۔جہاں صفائی اور ترتیب کا خبط ہو وہاں بہت کچھ غلط ہو جاتا ہے ، اندازہ تب ہوتا ہے۔ 

جب بہت کچھ بگڑ چکا ہوتا ہے، دوسری طرف ایک اور انتہا بھی ہے ،کاہلی، سستی، بدنظمی اور بے ترتیبی ہر پہلو پر نظر آتی ہے۔ اسلام صفائی کو نصف ایمان قرار دیتا ہے۔ گھر کے اندر نہ تو صفائی کا خبط ہو کہ انسانی جذبات و احساسات پر غالب ہو جائے اور نہ ہی پہلو تہی ہو کہ دین کے تقاضے متاثر ہونے لگیں۔ اس بات کابھی احساس ہوا کہ گھر کی فیکٹری حساس ترین ہوتی ہے، جہاں سلیقہ ،صفائی،جذباتی،روحانی، جسمانی، ہر پہلو سے حساسیت کی ضرورت ہے۔ اس کے منتظمین سے اس میں اعلی درجے کا توازن اور مہارت درکار ہے۔