اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں ) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق کیس میں جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیئے ایگزیکٹو کیخلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا خود جج بنکر فیصلہ کر سکتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے اس سوال کا جواب بہت سادہ سا ہے، اگر وہ شہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل چلے گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اختیارات کو وسیع کرکے سویلین کا ٹرائل ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ سویلین کا ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں۔ عدالت نے جیلوں میں 9 مئی ملزمان کے ساتھ جیل میں برتے جانے والے رویے کے حوالے سے رپورٹ بھی طلب کرتے ہوئے مزید سماعت آج بدھ تک ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قرار دیا کہ فوج کے ماتحت سویلنز کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے استفسار کیا کہ موجودہ کیس میں متاثرہ فریق اور اپیل دائر کرنے والا کون ہے؟ خواجہ حارث نے کہا اپیل وزارت دفاع کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ وزارت دفاع کیا ایگزیکٹو ادارہ ہے؟ ایگزیکٹو کیخلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا خود جج بن کر فیصلہ کر سکتا ہے؟ آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے، ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا، فوجی عدالتوں کے کیس میں بنیادی آئینی سوال ہے۔