• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی عدالتی تاریخ میں نیا باب، پاکستانی نژاد خاتون جج نے ٹرمپ آرڈر پر عمل روک دیا

نیویارک (عظیم ایم میاں، نیوز ڈیسک) پاکستانی نژاد امریکی خاتون جج لورین علی خان نے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر پر عمل درآمد کو عارضی طور پر روک کرامریکا کی عدالتی آزادی کی تاریخ میں ایک نئے باب کااضافہ کیا ہے۔ واشنگٹن میں وفاقی ڈسٹرکٹ جج کے اہم عہدے پر فائز 41؍ سالہ پاکستانی نژاد امریکی خاتون جج لورین علی خان نے امریکا کی نان پرافٹ تنظیموں کی نیشنل کونسل اور پبلک ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر عارضی ’’ایڈمنسٹریٹو اسٹے‘‘ کی منظوری دیدی ، اربوں ڈالرز کے فنڈز منجمد کرنے کے فیصلے پر عملدرآمد سے چند منٹ قبل 41سالہ وفاقی جج لورین علی خان نے اسٹے آرڈر جاری کردیا،ممتاز امریکی تنظیموں نے مقدمہ دائر کیا تھا، کیس کی آئندہ سماعت 3 فروری کو ہوگی،ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اظہاربرہمی ۔علی خان، جنہیں صدر جو بائیڈن نے مقرر کیا تھا، نے سوال کیا کہ حکم جاری کرکے کتنی فنڈنگ منجمد کی گئی؟انہوں نے کہا، "ایسا لگتا ہے کہ فی الحال وفاقی حکومت کو ان پروگراموں کی مکمل حد تک معلومات نہیں ہے جو فنڈنگ روکے جانے سے متاثر ہوتے۔"امریکی محکمہ انصاف کے اٹارنی ڈینیئل شوئی نے استدلال کیا کہ فنڈز کے منجمد کئےجانے کو نہیں روکا جانا چاہئے کیونکہ مدعیوں میں ایسا کوئی شخص نہیں ہے جو ٹرمپ کے حکمنامے کے نافذ ہونے سے فوری طور پر فنڈز سے محروم ہو جائے گا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے عہدیداروں نے کہا کہ اس فیصلے سے امریکیوں کو براہ راست مدد فراہم کرنے والے پروگرام متاثر نہیں ہوں گے، جیسے میڈیکیئر، سوشل سیکورٹی، طلباء کے قرضے اور فوڈ سٹیمپ شامل ہیں ۔ دوسری جانب 22 ریاستوں اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے ڈیموکریٹک اٹارنی جنرلز نے بھی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے وفاقی امداد روکنے کیخلاف عدالت سے رجوع کرلیا ہے، ٹرمپ انتظامیہ نے بدھ کے روز عدالت میں سماعت سے قبل اس حکم نامے کو ہی منسوخ کردیا جس کے تحت وفاقی قرضوں، گرانٹس اور دیگر مالی امداد کوروکا جانا تھا، وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ، اس پالیسی کے دفاع کے لئے دوسرے مسلسل دن عدالت میں پیش ہونے سے کچھ دیر پہلے یہ فیصلہ کیا گیا ، ڈیموکریٹس نے کہاہے کہ یہ وفاقی اخراجات پر کانگریس کے اختیار پر غیر قانونی حملہ ہے، جب کہ ریپبلکنز نے بڑے پیمانے پر اس کا دفاع کیا اور اسے ٹرمپ کے 6.75 ٹریلین ڈالر کے وفاقی بجٹ کو قابو میں کرنےکی مہم کے وعدے کو پورا کرنے کی کڑی قرار دیا ہے۔نیویارک سے عظیم ایم میاں کے مطابق عدالت کی جانب سے اسٹے آرڈر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ امریکا کے نیشنل میڈیا میں جج کے اس حکم کو نہ صرف بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا گیا بلکہ اس عارضی حکم کے اثرات اور مضمرات پر تبصرے بھی جاری ہیں۔ جج لورین علی خان کے والد ڈاکٹر محمود علی خان امریکی فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ جبکہ والدہ لند ا امریکی فوج میں نرس تھیں ۔

اہم خبریں سے مزید