جدہ (اے ایف پی، اے پی پی) اسلامی تعاون تنظیم نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے اور اس کے باشندوں کو بے گھر کرنے کے منصوبے کے خلاف عرب لیگ کی جوابی تجویز کو باضابطہ طور پر منظور کرلیا۔
او آئی سی نے عالمی برادری سے منصوبے کی حمایت کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
عرب لیگ کی طرف سے قاہرہ میں ایک سربراہی اجلاس میں اس منصوبے کی توثیق کے تین دن بعد مسلم ممالک کے57 رکنی اتحاد نے سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہنگامی اجلاس میں عرب منصوبے کو منظور کرلیا، مصر کے تیار کردہ متبادل منصوبے میں فلسطینی اتھارٹی کی مستقبل کی انتظامیہ کے تحت غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے ہفتے کے روز غزہ کی تعمیر نو کے عرب منصوبے کی حمایت کا اعلان کردیا ہے جس پر 53 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔
اس منصوبے کے تحت غزہ کی پٹی کے باشندوں کو بے گھر کرنے سے گریز کیا جائے گا۔
وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے او آئی سی وزراء خارجہ کے اجلاس کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو سرخ لکیر کے طور پر گردانا جائے۔
انہوں نے مسلم امہ پر زور دیا ہے کہ فلسطینی عوام کی غزہ یا مغربی کنارے سے زبردستی نقل مکانی کو نسلی تعصب کی بنیاد پر بے دخلی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگی جرم قرار دیا جائے، او آئی سی کو کسی بھی ایسی تجویز کو واضح طور پر مسترد کرنا چاہیے جو فلسطینیوں کو ان کے اپنے وطن سے نکالنے کی کوشش ہو۔
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ کسی بیرونی طاقت کو فلسطینیوں پر اپنا مستقبل تھوپنے کا کوئی حق نہیں ہے، انہیں خود ارادیت کے ذریعے اپنے مستقبل کا خود تعین کرنا چاہیے، او آئی سی کو کسی بھی مذموم ایجنڈے کے خلاف متحد ہونا چاہیے جس کا مقصد مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی آبادی کو تبدیل کرنا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان نے مصر کی طرف سے غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا کہ غزہ میں جنگ کا مستقل خاتمہ، اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا اور غیر محدود انسانی امداد تک رسائی یقینی بنائی جائے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے مصر، قطر اور امریکا کی طرف سے جنگ بندی کے لیے سہولت فراہم کرنے پر بھی خیر مقدم کیا جس سے امید کی کرن روشن ہوئی جبکہ غزہ اور فلسطین سے متعلق سعودی کردار کی بھی تعریف کی۔
قبل ازیں او آئی سی وزراء خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ غزہ کی تعمیر نوکا منصوبہ ایک حقیقت پسندانہ راستہ متعین کرتا ہے اور اگر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے تو غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کے تباہ کن حالاتِ زندگی میں تیزی سے اور پائیدار بہتری ہوگی۔
سعودی عرب نے بھی جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے ہنگامی وزارتی اجلاس میں فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے گھر کرنے کے مطالبات اور خیالات کو مسترد کرنے کی تجدید کر دی۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے غزہ میں پائیدار امن کی ضرورت پر زور دیا۔
اُنہوں نے کہا کہ ان کا ملک دو ریاستی حل کے لیے بین الاقوامی اتحاد کے ذریعے ممالک کے ساتھ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا خطے میں مستقل اور جامع امن صرف ایک ایسی فلسطینی ریاست کے قیام کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے جس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہو اور جس کی سرحدیں چار جون 1967ء والی ہوں۔
مصری وزیر خارجہ بدرعبدالعاطی نے او آئی سی کی توثیق کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ اب وہ امریکا سمیت وسیع تر بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
اُنہوں نے امریکی عہدیدار کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے اس منصوبے پر مکمل عرب اتفاق رائے کو اجاگر کیا۔
بدرعبدالعاطی نے توجہ دلائی کہ مصر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ کے ساتھ اس منصوبے اور اس کے فوائد کا جامع انداز میں جائزہ لینے کے لیے مثبت اور تعمیری بات چیت جاری رکھنے کا منتظر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ قدم یورپی یونین، جاپان، روس، چین اور دیگر فریقوں کی طرف سے اسے اپنائے جانے کے بعد غزہ کے لیے ایک بین الاقوامی منصوبہ بننا ہے۔
مصری وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ہم یہی چاہتے تھے اور اس مسئلے پر امریکا سمیت تمام فریقوں سے رابطے ميں ہیں تاہم غزہ کی تعمیر نو کے لیے مصری تجویز جس میں غزہ کو کنٹرول کرنے والی مزاحمتی تنظیم حماس کا ذکر نہیں، امریکا اور اسرائیل دونوں پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔
دریں اثناء ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے ہفتہ کو جاری اعلامیہ کے مطابق وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے او آئی سی اجلاس میں پاکستان کی جانب سے فوری سفارشات بھی پیش کیں جن میں جنگ بندی معاہدے پر تین مراحل میں مکمل اور فوری عمل درآمد شامل ہے، جنگ کا مستقل خاتمہ، غزہ سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا، غیر محدود انسانی امداد تک رسائی اور تعمیر نو کا ایک جامع منصوبہ بھی پاکستان کی تجاویز کا حصّہ ہے۔