جویریہ شاہ رُخ
رات بچّوں کو سُلا کر، سارے کاموں سے فارغ ہوئی، تو میاں جی کی کال آگئی۔ ’’آج منڈی جانے کا پروگرام ہے، تو آپ سو جائیے گا۔‘‘ بس، پھر کیا تھا، پیغام سُنتےہی مَیں نے بستر سنبھالا اور جلد ہی نیند کی آغوش میں چلی گئی۔
دن ذرا مصروف تھا، اِس لیے شاید نیند کچھ گہری تھی۔ آنکھ کُھلی تو محمّد احمد اپنے ننّھے ننّھے ہاتھوں سےمیرا پیر پکڑے ہوئے بلک بلک کر رو رہا تھا۔ مَیں نے فوراً اُسے گود میں لے کر پیار کیا اور پوچھا۔ ’’بیٹا! کیا ہوا، رو کیوں رہے ہو؟‘‘ تو اس نےروتے روتے ہی کہا۔ ’’مما! پشی آرہی تھی۔‘‘ مَیں سمجھ گئی کہ ضرور مجھے ڈھونڈتا ہوا واش روم کی طرف گیا ہوگا اور اندھیرے سے گھبرا کر ڈر گیا۔
یہ کوئی اتنی بڑی بات نہ تھی، مگر پھر بھی مجھے افسوس ہونے لگا کہ اُس کے اٹھانے پر میں فوراً کیوں نہیں اُٹھی۔ واش روم سے فارغ کروا کر اس کو پیار کر کے گود میں لٹایا، تو کچھ دیر پہلے سسکیاں لیتا محمد احمد میرے بازو پر، تحفّظ کی چادر اوڑھ کر سو گیا۔
اُس کے چہرے پر الگ ہی اطمینان تھا۔ مَیں سوچنے لگی۔ اللہ نے ماں اور اولاد کا رشتہ بھی کیا خُوب بنایا ہے۔ ماں، بچّے کے لیے ہرحد پار کرنے کو تیار ہوجاتی ہے اور اولاد کو جو سکون اور بے فکری ماں کے پاس میسر آتی ہے، وہ کہیں نہیں ملتی۔
چوں کہ حج کے ایّام تھے، تو مجھے فوراً بی بی حاجرہؑ اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کا تعلق یاد آیا۔ وہ ایک ماں کا تڑپنا ہی تو تھا، جو اپنے پیاسے بچّے کو نہ دیکھ پا رہی تھیں اور یہ معلوم ہونے کے باوجود بھی کہ صحرا میں بھلا پانی کہاں ملے گا، گرم، تپتی ریت پر اپنے تلوے جلا رہی تھیں۔ اور اللہ نے اِس تڑپنے کو ہی کو تو اس قدر پسند فرما کے زمزم جیسا معجزہ عطا کیا، تو دوسری طرف اُن کی ادا کو سعی کی صُورت آج تک زندہ رکھا ہوا ہے۔
یہ سب سوچتے ایک لمحے کو میرے چہرے پر مسکان آئی، مگر پھر یک دم غائب ہو گئی، کیوں کہ آج کتنی ہی مائیں ملبوں کے نیچے دبے بچّوں کو اپنی بانہوں میں سمونے کے لیے تڑپ رہی ہیں، تو کتنی ہی بھوک سے بلکتے بچّوں کو دیکھ کر غذا اور پانی کی فریاد کررہی ہیں۔ مگر لگتا ہے، یہ دنیا ماں کے رشتے ہی سے ناآشنا ہوگئی ہے۔
الحمدللہ، میرا احمد میرے پاس تھا۔ اُسے کوئی چوٹ بھی نہیں پہنچی تھی۔ ہاں، اُس نے کچھ دیر کو کمرے کے بیرونی حصّے میں خود کو اکیلا ضرور محسوس کیا تھا، تو گھبرا کے رو پڑا تھا اور اس کے یوں رونے پہ مَیں تڑپ اُٹھی تھی، تو جب غزہ کے بچے حقیقتاً اکیلے روتے تڑپتے ہوں گے، مائوں کو مدد کے لیے پکارتے ہوں گے، تو اُن کی بچھڑی مائوں کے دِلوں کو کیسے قرار و چین آتا ہوگا۔
ہم سب کو خُود سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا واقعی ہم ماں کی محبّت سے نا آشنا ہوچُکے ہیں یا ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اُن ماؤں کے سینوں میں دل نہیں، اُن کی ممتا کےسوتےخشک ہو گئےہیں؟ حضرت حاجرہؑ نے اگر دینِ حق کی حفاظت کے لیے صحرا قبول کیا، تو آج قبلۂ اوّل کے تحفّظ کی خاطر اپنا تن من دھن وار دینے والوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ بے بس و بے آسرا وہ بھی تھیں اور یہ بھی ہیں۔
آسمانی مدد کے سوا کوئی رستہ اُن کے پاس نہ تھا اور آج یہ مظلوم اہلِ غزہ بھی کسی معجزے کے انتظار میں بیٹھے ہیں، کیوں کہ ہم نے اور آپ نے تو ان کو اپنا ساتھی تسلیم کیا ہی نہیں۔ ثابت قدم وہ بھی تھیں، یہ بھی ہیں۔ تو پھر ایسا کیوں کہ ہم اپنے باپ حضرت ابراہیمؑ کی قربانی کو مانتے، سمجھتے، اُن کی پیروی کرتے ہوئے بھی، اِن مائوں کی قربانی فراموش کیے بیٹھے ہیں۔ حالاں کہ ذرا سا غور کر لیں، تو اِن دونوں کی گہری مماثلت کو ضرور محسوس کرلیں گے۔
حضرت ابرہیم علیہ السلام کی زندگی کا ہر باب ایثار و قربانی کاعملی مظہر ہے، تو دراصل اُسی کی عکاسی یہ انبیاءؑ کی زمین کے رکھوالے بھی کر رہے ہیں۔ اور یہ میرے، آپ کے جیسے محض جانوروں کی قربانی کرنے والے نہیں کہ یہ تو دینِ حق کے لیے اپنی اولاد، اپنا گھر بار، اپنا آپ ، اپنی کُل کائنات پیش کررہےہیں۔
اِنھی سوچوں میں غرق، مَیں نے بھیگی آنکھوں سے احمد کی طرف دیکھا، تو وہ گہری، پر سُکون نیندسو رہا تھا۔ مَیں نے اُس کےسر پر ہاتھ پھیرا اور خُود سے یہ عزم کیا کہ ’’مَیں ان شاء اللہ تعالیٰ اُس کو اندھیروں سے ڈرنے والا نہیں بلکہ اندھیروں میں دیپ جلانے والا بناؤں گی۔‘‘